بھارت کو ظاہر کرنا چاہیے وہ پناہ گزینوں کے تحفظ کیلئے حقیقی طور پر پرعزم ہے، ایچ آر ڈبلیو
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا ہے کہ بھارت کو یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ وہ تمام پناہ گزینوں کی حفاظت کرکے ان لوگوں کی مدد کرنے کے لیے حقیقی طور پر پرعزم ہے جن کی زندگی یا آزادی خطرے میں ہے۔
رواں ہفتے کے شروع میں بھارت نے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو نافذ کیا تھا، جس سے قومی انتخابات کے انعقاد سے ہفتوں قبل بڑے پیمانے پر مظاہروں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور اپوزیشن گروپوں کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوگئی۔
بھارت بھر میں ہزاروں لوگوں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا، اور اس خوف کا اظہار کیا کہ اس کا استعمال بھارتی مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے اور ان سے ان کے شہریت کے حقوق چھیننے کے لیے ہوسکتا ہے۔
تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں مظاہرین نے کینڈل لائٹ مارچ کیا اور قانون کے خلاف نعرے لگائے۔
آسام میں پیر کی رات مظاہرین نے قانون کی کاپیاں جلا دیں اور نعرے لگائے، اور مقامی اپوزیشن جماعتوں نے منگل کو ریاست گیر ہڑتال کی کال دی۔
بہت سے لوگ آسام میں ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش سے ہجرت کو بڑھا سکتا ہے، یہ ایک دیرینہ فلیش پوائنٹ ہے جس نے کئی دہائیوں سے ریاست کو پولرائز کیا ہوا ہے۔
جنوبی ریاست کیرالہ پر حکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے منگل کو ریاست گیر احتجاج کی کال دی تھی۔
تاہم کسی قسم کے نقصان یا سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایچ آر ڈبلیو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکام نے دہلی اور آسام میں کئی سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔
2019 میں پولیس نے قانون کے خلاف مظاہروں اور فرقہ وارانہ جھڑپوں کو کچلنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا تھا، جس سے نئی دہلی میں 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔
یہ ایکٹ، جس کی اصل میں 2019 میں بھارتی پارلیمنٹ نے منظوری دی تھی، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مذہبی اقلیتوں کے لیے شہریت کا ایک تیز رفتار راستہ پیش کرتا ہے جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت پہنچے تھے۔
یہ خاص طور پر ہندوؤں، پارسیوں، سکھوں، بدھ متوں، جینوں اور مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے لیکن مسلمانوں پر نہیں۔ ان افراد کو اب آن لائن درخواست کے عمل کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
پاکستان نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک ’ہندو فاشسٹ ریاست‘ کا امتیازی اقدام قرار دیا ہے، جس کا مقصد پڑوسی ممالک کی مظلوم غیر مسلم اقلیتوں کے لیے بھارت کو پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے تاحال مذہبی تعصب اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ترامیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت نہیں کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’بھارت کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی‘ قرار دیا اور اس عمل کو ’بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیا۔
اس نے نشاندہی کی کہ بھارت نے ظلم و ستم سے بھاگنے والے بہت سے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا ہے لیکن اکثریت کے ارکان کو بھی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے کہ افغانوں کے طالبان سے فرار ہونے کا خطرہ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اسے پناہ گزینوں کے کنونشن کی توثیق کرنی چاہیے، غیر امتیازی پناہ گزینوں کے قانون اور پناہ کے طریقہ کار کو قائم کرنا چاہیے، اور تمام تسلیم شدہ پناہ گزینوں کے لیے ان کے مذہب کی پرواہ کیے بغیر شہریت کا راستہ قائم کرنا چاہیے۔‘