• KHI: Maghrib 5:47pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:08pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:47pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:08pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:35pm

کیا پی ٹی اے کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟ عدالت

شائع March 14, 2024
— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے مبینہ آڈیو لیک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا ہے کہ کیا پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟

ڈان نیوز کے مطابق جسٹس بابر ستار کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر موبائل کمپنیز کے وکیل نے دلائل دیے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے ہم کسی کو مجاز نہیں کرتے ، اس پر وکیل نے جواب دیا کہ سسٹم بھی لگا ہوا ہے چابی بھی ان کے پاس ہے، وفاقی حکومت کا ہی اختیار ہے، حکومت اور ایجنسیز کو سسٹم تک رسائی ہے، وہ سسٹم ان کے دائرہ اختیار میں ہے، ہم سسٹم تک پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو رسائی دے دیتے ہیں وہ جس ایجنسی کو چاہتے ہیں اسے رسائی دے دیتے ہیں۔

وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی اے ہی اس حوالے سے بہتر جواب دے سکتا ہے۔

اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کسی موبائل کو ٹریس کرنے کے لیے آپ کا کیا کردار ہوتا ہے؟ وکیل نے کہا کہ یہ معلومات میں حاصل کرکے عدالت کو آگاہ کردوں گا۔

ٹیلی کام آپریٹرز کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی اے کی لائسنس پالیسی میں لیگل انٹرسیپشن کی شق موجود ہے، ٹیلی کام آپریٹرز پی ٹی اے کے لائسنس پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی اے وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر کیسے لیگل انٹرسیپشن کی شقیں شامل کر سکتا ہے؟

عدالت کے سوال پر پی ٹی اے کے وکیل عرفان قادر نے بتایا کہ قومی سلامتی یا کسی بھی جرم کے خدشے پر وفاقی حکومت فون ٹیپنگ کی اجازت دے سکتی ہے، فون ٹیپنگ کی اجازت دینا وفاقی حکومت کا اختیار ہے، پی ٹی اے کا نہیں۔

اس موقع پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ لیکن وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انہوں نے لیگل انٹرسیپشن کی کوئی اجازت نہیں دی ہے، کیا وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر ٹیلی کام آپریٹرز کسی ایجنسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت دے سکتے ہیں؟

وکیل پی ٹی اے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی اے کے پاس ایسی کوئی شکایت آئے تو ریگولیٹر کے طور پر ایکشن لیں گے۔

جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کے لیے لیگل انٹرسیپشن کی اجازت دینے میں تو مسئلہ نہیں ہے، آپ کا مؤقف ہے کہ پی ٹی اے نے لیگل انٹرسیپشن کے لیے کبھی خط و کتابت نہیں کی؟

اس پر چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمن نے عدالت میں کہا کہ کیا میں بات کر سکتا ہوں؟

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جی بالکل، آپ کو انا کی تسکین کے لیے نہیں بلکہ عدالتی معاونت کے لیے طلب کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا پی ٹی اے کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟

اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پی ٹی اے نے یہ شق ڈالنی ہوتی ہے، اس پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں اس سے ہمارا تعلق نہیں، لیگل انٹرسیپشن کے علاوہ لائسنس کی تمام شقوں پر پی ٹی اے عملدرآمد کراتا ہے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں گزشتہ ہفتے بارسلونا میں ٹیلی کام سے متعلق کانفرنس میں کلیدی اسپیکر تھا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 90 فیصد موبائلز میں وائرس ہوتا ہے، کیمرہ بھی آپریٹ کیا جا سکتا ہے، اسرائیل کی ایک کمپنی نے پیگاسس سافٹ ویئر بنایا جو موبائل کو متاثر کرتا ہے، یہ مشکل کام نہیں ہے، ایک منٹ لگتا ہے اور موبائل ہیک کیا جا سکتا ہے۔

میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمن نے جسٹس بابر ستار سے مکالمہ کیا کہ آپ فون میرے پاس چھوڑ کر واش روم جائیں، اتنی دیر میں موبائل کنکٹ کر کے مکمل رسائی لی جا سکتی ہے۔

اس موقع پر پی ٹی اے کے وکیل وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے کہہ رہے ہیں کہ غیر قانونی انٹرسپشن ایک سمندر ہے۔

اس پر جسٹس بابر ستار نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب غیر قانونی فون ٹیپنگ ہو رہی ہے؟

اس موقع پر چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) مرزا سلیم بیگ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ پیمرا اس سے متعلق ایڈوائزری جاری کر سکتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ٹیلی کام آپریٹرز کے وکیل کو آئندہ سماعت تک تحریری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

5 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے پی ٹی اے کے چیئرمین کو طلب کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ 19 فروری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران سرکاری افسران کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

13 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشری بی بی اور نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف درخواستوں کو یکجا کردیا تھا۔

19 ستمبر کو سماعت کے دوران آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں وزارت دفاع نے سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اور لیک ہونے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

اس کے بعد 20 دسمبر کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے کسی ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں دی۔

بعد ازاں 27 دسمبر کو خفیہ ایجنسی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ عام ہیکرز مبینہ آڈیو لیک کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ بشریٰ بی بی، نجم ثاقب کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے عدالت میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 29 اپریل 2023 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔

مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوذر چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہے۔

اس کے بعد نجم ثاقب پوچھتے ہیں کہ اب بتائیں اب کرنا کیا ہے؟ جس پر ابوذر بتاتے ہیں کہ ابھی ٹکٹ چھپوا رہے ہیں، یہ چھاپ دیں، اس میں دیر نہ کریں، ٹائم بہت تھوڑا ہے۔

اس حوالے سے تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی، تحریک کے متن کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو سامنے آئی ہے، مبینہ آڈیو کے معاملے کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں، نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اس تحریک کی منظوری کے اگلے روز ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے تحقیقات کے لیے اسلم بھوتانی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کر دی تھی، کمیٹی میں شامل دیگر ارکان میں شاہدہ اختر علی، محمد ابوبکر، چوہدری محمد برجیس طاہر، شیخ روحیل اصغر، سید حسین طارق، ناز بلوچ، خالد حسین مگسی، وجیہہ قمر اور ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی اپنی تحقیقات اور انکوائری کے سلسلے میں کسی بھی تحقیقاتی ادارے کی مدد لے سکے گی اور اپنی جامع تحقیقات کرکے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

30 مئی کو نجم ثاقب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی اسپیشل کمیٹی کی تشکیل چیلنج کردی تھی, درخواست میں نجم ثاقب نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلم بھوتانی کی سربراہی میں پارلیمانی پینل کی کارروائی روک دی جائے کیونکہ یہ باڈی قومی اسمبلی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کمیٹی نے انہیں طلب نہیں کیا لیکن کمیٹی کے سیکریٹری نے اس کے باوجود انہیں پینل کے سامنے پیش ہونے کو کہا۔

دوسری جانب 8 دسمبر 2022 کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک ہوئی جس میں دونوں کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

21 سیکنڈ پر مشتمل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو میں زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی کو گھڑیوں کے بارے میں بات چیت کرتے سنا جاسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 نومبر 2024
کارٹون : 7 نومبر 2024