• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

’خدارا جنگ بند کریں‘ رفح کیمپ میں 19 سالہ فلسطینی لڑکی پر کیا بیت رہی ہے؟

'ہم تھک چکے ہیں۔ ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارا کیا قصور تھا جو ہم بے گھر ہوئے؟ بچوں کا کیا قصور تھا جو ان کا بچپن ان سے چھین لیا گیا؟'
شائع March 13, 2024

’آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کچھ نہیں اور آپ کی کوئی قدر نہیں‘، یہ کہنا تھا ایک فلسطینی لڑکی دیما النجار کا جو اس وقت 15 لاکھ فلسطینیوں کے ہمراہ مصر کی سرحد کے قریب واقع رفح میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ 7 اکتوبر حملوں کے جواب میں مقبوضہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ کرنے والا اسرائیل بارہا اپنے مقصد کا اعلان کرچکا ہے کہ اسے 41 مربع میل کے اس چھوٹے سے انکلیو (غزہ) سے حماس کے جنگجوؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔

اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں اب تک 31 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جبکہ غزہ کی تقریباً پوری آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے۔

ڈان کے ساتھ گفتگو میں دیما النجار نے بتایا کہ ایک 19 سالہ لڑکی کے لیے زندگی کیسی ہے جو یہ نہیں جانتی کہ کون سا دن اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔ وہ کہتی ہیں، ’آپ کو ہر دن اپنی یادوں اور قیمتی سامان کو چھوڑ کر موت اور تھکاوٹ کی جانب سفر کرنا پڑتا ہے‘۔

جس وقت یہ انٹرویو لیا گیا اس وقت رفح بھی اسرائیل کی ہولناک کارروائیوں کی زد میں آچکا تھا۔ دیما النجار کی گفتگو عکاسی کرتی ہے کہ ایک بےگھر شخص کیمپ میں کیسی زندگی گزار رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ہر طرف بمباری اور اندھا دھند فائرنگ ہورہی ہے‘۔

   19 سالہ دیما النجار—انسٹاگرام
19 سالہ دیما النجار—انسٹاگرام

غزہ کے جنوبی حصے میں واقع رفح ایک چھوٹا شہر ہے جہاں 15 لاکھ بے گھر فلسطینیوں کو پناہ حاصل ہے۔ اگر رفع کو پاکستان کا اسلام آباد تصور کرلیں تو شاید آپ کے ذہن میں اس علاقے کی تصویر زیادہ واضح ہوجائے گی۔ رفع تقریباً 37 ایکڑ پر پھیلا ہے جبکہ اسلام آباد کی زمین 2 لاکھ 24 ہزار ایکڑ ہے اور اس کی آبادی صرف 10 لاکھ کے قریب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رفح اس وقت کتنا تنگ ہے اور صورت حال سنگین ہے کہ جہاں 15 لاکھ افراد کو ایک چھوٹی سے علاقے میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

  میکسار ٹیکنالوجیز کے ذریعے لی گئی سیٹیلائٹ تصویر جو رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے پناہ گزین کیمپوں کی تعداد دکھاتی ہے—تصویر: رائٹرز
میکسار ٹیکنالوجیز کے ذریعے لی گئی سیٹیلائٹ تصویر جو رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے پناہ گزین کیمپوں کی تعداد دکھاتی ہے—تصویر: رائٹرز

  رفح کی سیٹیلائٹ تصاویر جو علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کی ہجرت سے پہلے اور بعد کے مناظر دکھاتی ہیں، 15 اکتوبر 2023ء (بائیں) اور 14 جنوری 2024ء (دائیں) —تصویر: پلینیٹ لیبز پی بی سی/رائٹرز
رفح کی سیٹیلائٹ تصاویر جو علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کی ہجرت سے پہلے اور بعد کے مناظر دکھاتی ہیں، 15 اکتوبر 2023ء (بائیں) اور 14 جنوری 2024ء (دائیں) —تصویر: پلینیٹ لیبز پی بی سی/رائٹرز

’کسی بھی شخص کے لیے بدترین تجربہ‘

دیما النجار کا تعلق خان یونس کے گاؤں خزاعہ سے ہے اور وہ رفح تک اپنے سفر کو ’کسی بھی شخص کا بدترین تجربہ‘ کہتی ہیں۔

تصور کریں کہ اپنا گھر اور اپنی زندگی چھوڑنے پر مجبور کرکے خطرات کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جانا کیسا ہے، بربادی یا تباہی جیسے الفاظ ان جذبات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی نہیں جو اس وقت آپ محسوس کررہے ہوں گے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس میں دیما النجار اور لاکھوں فلسطینی زندگی گزار رہے ہیں۔

دیما نے بتایا کہ 7 اکتوبر سے اب تک وہ 4 بار ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرچکی ہیں۔ پہلے خان یونس میں اپنے گاؤں خزاعہ سے غزہ کے جنوبی حصے میں واقع اباسان الکبیرہ شہر میں گئیں۔ پھر اباسن الکبیرہ سے وہ خان یونس کے ایک اسکول میں چلی گئیں، اس کے بعد وہ ایک بار پھر اباسان الکبیرہ چلی گئیں اور اب انہوں نے رفح کے کیمپ میں پناہ حاصل کر رکھی ہے۔

کھانے اور پانی کی محدود دستیابی میں بقا کی جنگ فلسطینیوں کی روزمرہ کی جدوجہد ہے، ایک بڑی تعداد سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے اور وہ اہم تجربات بھی چھین لیے گئے ہیں جو ان کی جوانی کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دیما النجار کہتی ہیں، ’اس سب کے بعد میں ایک چھوٹی بچی نہیں رہی۔ میں ایک عمر رسیدہ خاتون بن چکی ہوں جسے اپنی فیملی اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کی پروا ہے۔ ایک ذمہ دار خاتون جس پر پریشانیوں کا بوجھ ہے لیکن پھر بھی وہ مسکراتی ہے‘۔

’ٹوٹے ہوئے خواب‘

جنگ سے پہلے اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں پتا چلا کہ ان کی جوانی، خوابوں اور عزائم سے جڑی امید اب مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔

’میں ایک آزاد لڑکی تھی، جو چاہتی وہ کرتی تھی لیکن اب میں ایک بند گلی میں موجود ہوں جہاں آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں‘۔

دیما النجار کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ہمیں ایک پوسٹ پن نظر آئی جس سے ہمیں 7 اکتوبر سے پہلے کی ان کی زندگی کی جھلک ملے گی۔ پن کی گئی پوسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہائی اسکول کے فائنل نتائج میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے ہیں۔ جشن کی تقریبات میں خوشی سے رقص ہوتا دکھایا گیا ہے جبکہ دیما کے والد اپنی بیٹی کے شاندار نتائج پر فرش پر سجدہ ریز ہوکر اظہار تشکر کررہے ہیں۔

قیمتوں اور محدود امداد نے بہت سے فلسطینیوں کے لیے ضروریات زندگی تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے۔ جہاں اسرئیل غزہ میں امدادی ٹرک کے داخلے پر رکاوٹیں ڈال رہا ہے، وہیں بہت سے ممالک ہوائی جہازوں سے امدادی سامان نیچے پہنچا رہے ہیں لیکن یہ طریقہ غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اپنے موجودہ تلخ حالات کے باوجود دیما النجار اپنے لوگوں کی مدد کے لیے فوری طور پر کام کرنے لگیں۔ انہوں نے گو فنڈ می (GoFundMe) نامی اکاؤنٹ بنایا ہے جس پر بھیجی گئیں عطیات کو کھانا یا بچوں کے کھلونوں کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

اس صورت حال کو قیامت خیز کہا جاسکتا ہے۔ جس ظلم اور محرومی کا اس پٹی کو سامنا ہے اس کی حالیہ تاریخ میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔

’غزہ کے بہت سے خوبصورت علاقوں میں ہماری زندگی خوبصورت تھی‘۔

کیمپ میں اپنی زندگی سے پہلے وہ شام میں نوجوانوں کے گروپس کے ساتھ رضاکارانہ کام کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’میں ایک ایسی لڑکی تھی جو اپنے پروجیکٹ کے حوالے سے کافی پُرعزم تھی‘۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’ایک ایسی لڑکی جسے اپنے علاقے میں رضاکارانہ کام اور لوگوں کی مدد کرنا پسند تھا‘۔

جب وہ رضاکارانہ کام نہیں کررہی ہوتیں تو وہ اپنی فیملی کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ وہ علی الصبح اٹھ کر کپڑے دھوتی ہیں، کیمپ صاف کرتی ہیں اور پھر ٹینکر سے پانی لینے جاتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ خالی ہاتھ واپس لوٹتی ہیں کیونکہ ٹینکر کا پانی کیمپ میں موجود تمام افراد کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی بیمار دادا کے ساتھ بھی وقت گزارتی ہیں۔

انہوں نے اپنے دادا کی تصویر بھی بھیجی جس میں وہ کیمپ میں زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک ہلکا کمبل اوڑھا ہوا ہے جوکہ سردی سے بچاؤ میں کسی صورت کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا جبکہ تصویر میں ان کا یورین بیگ بھی جڑا نظر آرہا ہے۔

’یہ بہت مشکل ہے، میرے ضعیف دادا کو پانی، کھانے تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ان کے لیے اس سخت ٹھنڈے موسم میں بیت الخلا جانا بھی مشکل ہے۔ میرے دادا معذور ہیں جنہیں خصوصی سہولیات تک رسائی میسر نہیں‘۔

’میں اپنی زمین پر مرنا پسند کروں گی‘

رمضان کے مقدس مہینے میں بھی رفح پر اسرائیلی جارحیت کے خطرے کے حوالے سے ہم نے دیما النجار سے پوچھا کہ اگر مصر اپنی سرحدیں کھول دے گا تو کیا وہ غزہ چھوڑ دیں گی۔

انہوں نے کہا، ’اگر مصر اپنی سرحدیں کھول دیتا ہے تاکہ لوگ سینائی علاقے میں ہجرت کرجائیں تو میرے لیے غزہ چھوڑنا ناممکن ہوگا۔ میں قسم کھاتی ہوں میں اپنی زمین پر مر جاؤں گی لیکن سینائی ہجرت نہیں کروں گی‘۔

اگرچہ مصری حکام کی جانب سے اپنی سرحدوں پر پناہ گزین کیمپ کی تعمیر کی خبروں کی تردید کی گئی ہے لیکن برطانیہ کی سینائی فاؤنڈیشن فار ہیومن رائٹس کی طرف سے لی گئی ویڈیوز میں ٹرک اور بلڈوزرز کو ملبہ صاف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اسرائیلی افواج نے رفح میں زمینی حملے کے اپنے ارادے کا بھی اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے وہ ’حماس کے خلاف مکمل فتح‘ حاصل کرسکتے ہیں۔

اسرائیلی افواج نے اپنے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کو رمضان تک کی مہلت دی ہے ورنہ وہ رفح میں داخل ہوجائیں گے۔ غزہ کے جنوبی شہر پر زمینی حملے کا خطرہ، جبری انخلا اور موت کا خوف 15 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

’میں آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے نام نہاد انسانی حق کو بھول چکی ہوں‘۔

’خدارا جنگ بند کریں۔ ہم تھک چکے ہیں۔ ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارا کیا قصور تھا جو ہم بے گھر ہوئے؟ بچوں کا کیا قصور تھا جو ان کا بچپن ان سے چھین لیا گیا؟ بزرگ افراد کا کیا قصور تھا؟ براہِ کرم جنگ بند کریں‘، یہ وہ پیغام تھا جو دیما النجار ڈرونز اور بمباری میں پِستے لاکھوں فلسطینیوں کے توسط سے دنیا کو پہنچانا چاہتی ہیں۔

دنیا بھر سے جنگ بندی کے مطالبات کیے جارہے ہیں لیکن طاقتور قوتیں اس سے بےنیاز نظر آتی ہیں۔

اموات کے نہ رکنے والے سلسلے اور تباہی کے باوجود دیما النجار نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھیں گی، ’میں ہار نہیں مانوں گی چاہے میں خود تباہی کے دہانے پر ہی کیوں نہ ہوں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مریم سارہ جاوید

لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔