• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سندھ کی 3 مخصوص نشستوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے پر صدارتی انتخاب میں کاؤنٹ نہ کرنے کی ہدایت

شائع March 8, 2024
سندھ ہائی کورٹ  — فائل/فوٹو: فیس بک
سندھ ہائی کورٹ — فائل/فوٹو: فیس بک

سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی اسمبلی کی 3 مخصوص نشستوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے کی صورت میں صدارتی انتخاب میں کاؤنٹ نا کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ْ

سندھ ہائی کورٹ نے سندھ اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا ہے کہ صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے عمل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی ہے، مخصوص 3 نشستوں کے ووٹ کو درخواست کا حتمی فیصلہ آنے تک فیصلہ کن نہ سمجھا جائے۔

درخواست کی سماعت جسٹس ذوالفقار احمد خان کے چیمبر میں ہوئی، سنی اتحاد کونسل کی جانب سے سندھ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے درخواست پر عدالت کی جانب سے فریقین کو 28 مارچ کے لیے نوٹس بھی جاری کردیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی خواتین کی مخصوص نشست پر سمیتا افضال اور ایم کیو ایم پاکستان کی فوزیہ حمید نے کل حلف اٹھایا تھا ، پیپلز پارٹی کے اقلیتوں کی مخصوص نشست پر سریندر ولاسائی نے بھی کل حلف اٹھایا تھا۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے بتایا کہ عدالت نے ووٹ ڈالنے سے اراکین سے کو نہیں روکا ہے، عدالت نے صرف یہ ہدایت کی اگر ان تینوں ووٹوں سے صدارتی انتخاب میں فرق نہیں پڑ سکتا تو ووٹ گنے جا سکتے ہیں لیکن اگر یہ 3 ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں تو گنتی میں شمار نہ کیے جائیں، عدالت کی جانب سے فی الحال کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا، ہم نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کی تاریخ جاری ہوچکی ہے اس کے خلاف حکم امتناع جاری ہونا نہیں چاہیے۔

درخواست گزار سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے میڈیا کو بتایا کہ مخصوص نشستوں کے ووٹ اہم ہیں، اگر سندھ اسمبلی کی ان تین مخصوص نشستوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوں تو شمار نہیں ہوں گے، اگر صدارتی نشست پر جیتنے والے امیدوار کے ووٹ میں صرف 3 ووٹوں کا فرق ہوگا تو یہ شمار نہیں ہوں گے، اگر جیتنے والے امیدوار اکثریت سے کامیاب ہوتا ہے تو یہ 3 ووٹ شمار ہوں گے

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آئندہ سماعت پر ہوگا، ہمیں سینیٹ کے الیکشن سے پہلے تک کا موقع مل گیا ہے، عدالت کی آبزرویشن ہے کہ صدارتی انتخابات میں یہ ووٹ کاؤنٹ نہیں ہوں گے۔

یاد رہے کہ آج ہی سنی اتحاد کونسل نے سندھ میں مخصوص نشستیں نہ ملنے کا اقدام سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، آئینی درخواست بیرسٹر علی طاہر کے توسط سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی، عدالت نے درخواست کی فوری سماعت کی استدعا بھی منظور کرلی تھی۔

سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے باوجود آزاد امیدواروں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی، آزاد امیدواروں نے قانونی طریقے سے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیارکی، سندھ اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کی اقلیت کی ایک اور خواتین کی 2 مخصوص نشستیں بنتی ہیں، الیکشن کمیشن پاکستان کا فیصلہ غیر آئینی و غیرقانونی قراردیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کو غیرآئینی فیصلے کے نتیجے میں سنی اتحاد کونسل کو ان نشستوں سے محروم کردیا، الیکشن کمیشن نے اقلیتی نشست پیپلز پارٹی کو دی، جبکہ خواتین کی نشستیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان میں تقسیم کردی ہیں، لہذا سندھ اسمبلی میں مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو الاٹ کرنے کی ہدایت کی جائے۔

اس مینں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کیا ہے اور قانون کا غلط استعمال کیا ہے لہذا عدالت سندھ اسمبلی کی مخصوص نشستوں کو سیاسی جماعتوں کے تناسب سے ڈکلیئر کرنے کی ہدایت جاری کرے، الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے حکم کو معطل کیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے پنجاب میں مخصوص نشستیں نہ ملنے کا اقدام لاہورہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

صاحبزادے حامد رضا نے درخواست نے ایڈووکیٹ اشتیاق اے خان کی وساطت سے دائر کی تھی، درخواست میں الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نہ تو ٹربیونل ہے، نہ عدالت، اسمبلی میں سیٹوں کے تناسب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنی چاہیے، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑا یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا عمل آئین میں ترمیم کے مترادف ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ اپنے اختیارات سے تجاوز ہے لہذا عدالت الیکشن ایکٹ کا سیکشن 104، رول 94 خلاف آئین قرار دے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہی پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے حکم میں 13 مارچ تک توسیع کردی تھی۔

کیس کی سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، سنی اتحاد کونسل کی جانب سے بابر اعوان اور قاضی انور عدالت میں پیش ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین کے وکلا بھی عدالت کر روبرو پیش ہوئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024