• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

الیکشن کمیشن: اکبر ایس بابر، دیگر نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کردیا

شائع March 5, 2024
اکبر ایس بابر۔ فوٹو: ڈان نیوز
اکبر ایس بابر۔ فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اکبر ایس بابر اور دیگر افراد نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کردیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ناٹک ہیں، الیکشن کمیشن سے کہا ہے انہیں مزید موقع نہ دیا جائے۔

اکبر ایس بابر نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے ایک ہی قیادت انٹراپارٹی الیکشن میں بلامقابلہ منتخب ہوتی ہے؟ تحریک انصاف نے ایک بار پھر انٹرا پارٹی کےنام پر ڈھونگ کیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے اراکین کی پی ٹی آئی کی بنیادی رکنیت معطل کی جائے اور تحریک انصاف کے اثاثے اور دفاتر منجمد کیے جائیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کےانٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف الیکشن کمیشن میں دو الگ درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن میں درخواستیں محمود خان اور محمد مزمل نے دائر کیں جن میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشنز کالعدم قرار دیے جائیں اور رہنماؤں کو پی ٹی آئی کا پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روکا جائے۔

یاد رہے کہ 3 مارچ کو نئے انٹرا پارٹی انتخابات میں بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کے چیئرمین منتخب ہوگئے تھے۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے رؤف حسن نے اعلان کیا کہ بیرسٹر گوہر بلامقابلہ چیئرمین کا عہدہ جیت گئے ہیں کیونکہ ان کے مدمقابل کوئی اور امیدوار نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر اس عہدے کے لیے اشرف جبار، عمر ایوب، نوید انجم خان اور بیرسٹر گوہر کی جانب سے چار درخواستیں آئی تھیں جن میں سے تین درخواستیں منظور کی گئیں جبکہ نوید انجم کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ یہ تیسرا موقع ہے جب پی ٹی آئی نے گزشتہ دو برسوں میں انٹراپارٹی انتخابات کرائے تھے، 2 دسمبر کے انتخابات کے نتیجے میں 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی تھی، ان انتخابات میں بیرسٹر گوہر پہلی مرتبہ چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل اکبر ایس بابر نے 2 دسمبر 2023 کو ہونے والے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو 5 دسمبر 2023 میں چیلنج کردیا تھا۔

22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مؤقف سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع جاری کرنے پر اعتراض کیا تھا۔

2 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔

3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے انتخابی نشان کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی جسے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024