انٹرنیٹ کی بندش ٹیکنالوجی کے شعبے پر کیسے اثرانداز ہورہی ہے؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ سال میں پاکستان کی ٹیکنالوجی کی برآمدات میں 133 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ برآمدات مالی سال 2018ء میں صرف ارب ڈالرز تھیں جوکہ بڑھ کر 2023ء میں تقریباً 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
جہاں پاکستان کے پالیسی ساز اس شعبے کی طرف توجہ مبذول کروا رہے ہیں، اس شعبے کے لیے بڑے اہداف طے کررہے ہیں اور مجموعی برآمدی صلاحیت کو اجاگر کر رہے ہیں، وہیں حقیقت یہ ہے کہ ان کے اقدامات کی وجہ سے ٹیکنالوجی کے ماحولیاتی نظام کی ممکنہ اور طویل مدتی عملداری کمزور ہورہی ہے۔
اس بے یقینی کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ کی بار بار بندش ہے جو پاکستان کے چند معاشی طور پر کامیاب شعبوں میں سے ایک کو متاثر کررہا ہے۔ چاہے مخصوص سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک محدود کیوں نہ ہو، کیا یہ انٹرنیٹ کا شٹ ڈاؤن جاری رہنا چاہیے؟ سرمایہ کاروں کے اعتماد، برآمدی شرح نمو اور عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں ملک کی ساکھ پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
سرمایہ کاری میں رکاوٹ
کسی بھی شعبے میں ہونے والی ترقی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے، بالخصوص ایک ایسا شعبہ جو مہنگائی کا سامنا کرتی معیشت میں قیمتی زرمبادلہ پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ کار سرمایہ لگاتے ہوئے استحکام اور امکانات کو نظر میں رکھتے ہیں، خاص طور ایسا سرمایہ جو ایسے نئے منصوبوں کی پیمائش کرے جس میں جدت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی کی ضرورت ناگزیر ہے، ایسے میں انٹرنیٹ پر من مانی پابندیاں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اس طرح بندش سے ڈیجیٹل سروسز کے بلاتعطل آپریشن اور مارکیٹ میں مصنوعات کی مسلسل ترسیل کو یقینی بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔
اگرچہ کچھ آرگنائزیشنز، ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) اور ایک سے زائد وائرڈ اور وائرلیس کنکشنز کے استعمال کے ذریعے وقتی طور پر شٹ ڈاؤن سے بچ سکتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ وی پی این اور ایک سے زیادہ کنکشنز اضافی خرچہ ہے جو پاکستان سے باہر حریفوں کو برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ نتیجتاً، نہ صرف سرمایہ کاروں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں بلکہ زیادہ لاگت کی وجہ سے مسابقت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اس کے علاوہ جب بغیر پیشگی اطلاع کے انٹرنیٹ بند کردیا جاتا ہے تو ٹیکنالوجی فرمز ڈیڈلائن پر کام پورا نہیں کرپاتیں جس سے انہیں نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ ان کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ اپ اسٹارٹ ٹیکنالوجی فرمز اور فری لانسرز کے لیے جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان کے لیے انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے تباہ کُن اثرات ہوسکتے ہیں کیونکہ مقررہ تاریخ تک کلائنٹ کو کام کرکے نہ دینے سے فرمز کی ساکھ یا شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
منفی تاثرات
بار بار انٹرنیٹ بندش سے پیدا ہونے والے منفی اثرات، غیر ملکی کمپنیوں اور کلائنٹس کے درمیان خطرے کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگرچہ کم قیمت اور مصنوعات کے بہتر معیار کی وجہ سے یہ کمپنیاں پاکستانی ٹیکنالوجی پارٹنرز کی طرف متوجہ ہوسکتی ہی لیکن رسک کی وجہ سے وہ پیچھے بھی ہٹ سکتے ہیں۔
سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، کسٹمر سپورٹ اور بیک آفس آپریشن جیسے شعبہ جات جن کے لیے انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی ناگزیر ہے، اس طرح کی رکاوٹیں ان کے لیے ڈیل بریکر ہیں۔ بے یقینی سے رسک پیدا ہوتا ہے جسے بہت سی کمپنیاں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، بالخصوص بڑی غیرملکی کمپنیاں جو عام طور پر اہم ٹیکنالوجی کے معاہدوں میں رسک نہیں لیتیں۔
سرمایہ کاروں کی یہ ہچکچاہٹ نہ صرف نئے کاروباری مواقع کو متاثر کرتی ہے بلکہ پہلے سے استوار تعلقات کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔ طے شدہ معاہدوں میں ایسی شقیں شامل ہوسکتی ہیں جو سروس فراہم کرنے والوں کو ڈاؤن ٹائم کے لیے جرمانہ کیا جائے جبکہ انٹرنیٹ کی بار بار بندش سروس لیول کے معاہدوں کی خلاف ورزی، مالی جرمانے اور بالآخر کاروبار کے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
پاکستان میں جب بھی انٹرنیٹ بند ہوتا ہے، بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ عالمی میڈیا کے ذریعے ملک کا منفی تاثر جانے کا اتنا ہی نقصان ہوسکتا ہے جتنا کہ انٹرنیٹ بندش کا کیونکہ یہ دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتا ہے جس سے ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والے مثبت کاموں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔
گزشتہ سالوں سے اسباق
پاکستانی عوام اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ عدم استحکام کا تاثر ختم کرنا انتہائی مشکل ہے جبکہ یہ حالات بہتر ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک یہ تاثر ختم نہیں ہوگا۔ جیسے 2007ء اور 2015ء کے درمیان سیکیورٹی کے بگڑتے ہوئے حالات کے پیداواری ایکسپورٹ سیکٹر پر طویل مدتی اثرات اب تک موجود ہیں۔ جیسے جیسے ملک میں تشدد میں اضافہ ہوا، غیر ملکی شراکت داروں نے پاکستان آنا بند کردیا جبکہ انہوں نے دبئی جیسے دیگر مقامات کو ترجیح دی۔ بہت سے لوگوں نے سیاسی اور سلامتی کے خطرے کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا اور اپنے آرڈرز بنگلہ دیش اور بھارت جیسے دیگر ممالک کو دے دیے۔
ایسی پیش رفت کے نتیجے میں برآمدی آرڈرز منسوخ ہوئے، غیر ملکی سپلائی چینز کے ساتھ روابط کم ہوئے اور سرمایہ کاری میں کمی آئی جس کے طویل مدتی اثرات سے ہمارا ملک آج بھی نبردآزما ہے۔
آج ڈیجیٹل دنیا میں دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں خطرات کم ہیں لیکن انٹرنیٹ کی بندش یا سائٹس پر پابندیوں کے نتائج آنے والے مہینوں اور سالوں میں ضرور اثرانداز ہوں گے۔
انٹرنیٹ کی من مانی بندش پاکستان کے ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے ایک خود ساختہ زخم ہے جبکہ اس سے ملک کی ڈیجیٹل اختراعات کا مرکز بننے کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد، برآمدات اور ملک کی بین الاقوامی ساکھ پر بھی نمایاں اور دور رس اثرات پڑتے ہیں۔
یہ انٹرنیٹ کی بندشیں علامات کی جانب تو توجہ دلارہی ہیں مگر پاکستان کو درپیش ان معاملات کی طرف نہیں جو ملکی سیاسی اقتصاد کو تباہ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان بندشوں کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس سے معاشرے میں مزید عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر مسلسل پابندیاں پاکستان کی برآمدات اور ٹیکنالوجی کے وسیع شعبے کے لیے براہ راست خطرہ ہیں اور اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے امن کے سینیئر فیلو اور پاکستانومی نامی پوڈکاسٹ کے میزبان ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔