’ہماری عدالت جمہوری ہے، آپس میں اختلاف کرتے ہیں‘، بھٹو پھانسی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی
سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی ہوگئی ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے، ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
عدالتی معاون منظور ملک نے عدالت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے اس کیس کی سمری تیار کی ہے، یہ واقعہ 11 اور 12 نومبر 1974 کی درمیانی شب پیش آیا، یہ وقوعہ لاہور میں شادمان چوک میں پیش آیا تھا، تھانہ اچھرہ لاہور میں درج مقدمے پر تفتیش یہ کہہ کر بند کی گئی کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو مقدمے میں ملزم نامزد نہیں تھے، کیس کا ریکارڈ 8 اگست 1977 کو دوبارہ تفتیش کے لیے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا، تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔
عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی اور سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی، احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قتل کی پہلی تفتیش بند کیسے ہوئی اور دوبارہ شروع کیسے ہوئی یہ اہم ہے، پہلے تفتیش بند کرتے ہوئے کہا گیا ملزمان کا کچھ پتہ نہ چلا، پولیس نے مجسٹریٹ سے کیس داخل دفتر کرنے کی استدعا کی تھی ، مجسٹریٹ نے پولیس کی کیس بند کرنے کی استدعا منظور کی، مجسٹریٹ نے کیس بند کرنے کا باقاعدہ آرڈر جاری کیا، مجسٹریٹ کے اس آرڈر کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
منظور ملک کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ کا آرڈر آج تک برقرار ہے مگر ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا؟
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے صرف لکھا ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی، یہ صرف تعصب نہیں بلکہ بدیانتی تھی۔
عدالتی معاون کا مزید کہنا تھا کہ کہا گیا احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش کی گئی مگر احمد رضا قصوری آج بھی زندہ ہیں، اللہ انہیں لمبی زندگی دے، سیشن جج اعجاز نثار نے پبلک پراسیکیوٹر سے معاملے پر رپورٹ مانگی تھی، اگلے ہی روز کیس ہائی کورٹ کو منتقل ہو گیا۔
چیف جسٹس نے عدالتی معاون جسٹس (ر) منظور ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہےآپ تو آج تمام ٹی وی چینلز کی ریٹنگز بریک کر رہے ہیں، سنسنی اور سسپنس کی وجہ سے ہمیں انتظار رہتا ہے آپ آگے کیا کہنے والے ہیں۔
عدالتی معاون نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تعصب کا الزام لگایا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ تو ایک جج کی حد تک ہی الزام تھا، اس پر منظور ملک نے کہا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، جب چیف جسٹس کو متعصب ہونے کا کہہ دیا جائے تو باقی سب شامل ہو ہی جائیں گے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالتی معاون سے دریافت کیا کہ آپ ہاتھی کس کو کہہ رہے ہیں؟ اس پر منظور ملک نے بتایا کہ یہ میں تو نہیں کہہ رہا جس نے محاورہ بنایا اس نے کہا۔
’اختلاف کرنے کا مطلب ہے آپ زندہ ہیں‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں، عدالتی معاون نے جواب دیا کہ یہ تو بہت صحتمندانہ چیز ہے، اختلاف کرنے کا مطلب ہے آپ زندہ ہیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو اختلاف کرتا ہے وہ ہاتھی کے پاؤں سے نکل جاتاہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ آپ کافی دیر سے کھڑے ہیں تھوڑا وقفہ کر لیں یا چلیں پہلے جو کیس ٹرانسفر والا نکتہ ہے وہ مکمل کر لیں۔
بعد ازاں عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں 2:30 بجے تک وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون منظور ملک نے عدالت کو بتایا کہ 24ستمبر 1977 کو پہلی سماعت ہوئی اور اگلی سماعت پر شواہد طلب کر لیے گئے۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل پیش ہوئے تھے؟ منظور ملک نے بتایا کہ پہلی سماعت تھی ابھی پیش نہیں ہوئے تھے، قانونی عمل کی کھلی خلاف ورزی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آرڈر شیٹ دیکھ رہا ہوں لگتا ہے جیسے کوئی سول کیس تھا، جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ فرد جرم تو 11 اکتوبر کو عائد کی گئی تھی۔
’بھٹو کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس پارٹی بن چکے تھے‘
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر کسی کے خلاف فرد جرم کے لیے مواد ناکافی ہو تو کیا ہو گا؟ عدالتی معاون نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں ملزم بری ہو جائے گا، بھٹو کیس میں فرد جرم بھی ملزمان پر الگ الگ عائد کی گئی، اس اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ ملزمان ایک سے زیادہ ہوں تو فرد جرم ایک ہو گی، پہلے ہی دن ذہن بنا لیا گیا تھا کہ بس ملزم آگیا تو ٹرائل ہی کرنا ہے، پہلے ہی دن کہہ دیا گیا کہ شہادتیں طلب کرتے ہیں۔
عدالتی معاون نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کو یہ کیس سننا چاہیے تھا؟ جب وہ لکھ چکے تھے کہ وہ ناراض ہو گئے تو وہ پارٹی بن چکے تھے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھٹو پر جو پہلا چارج لگا اس کو ذرا دیکھیں، اس چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے، کچھ تو بتائیں پرائم منسٹر ہاؤس میں یہ سازش ہوئی؟ کہاں ہوئی؟ میں تو حیران ہوں، اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے۔
عدالتی معاون نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ایک گواہ نے کہا اس نے ریٹائرڈ چیف جسٹس کو مارنے کے لیے اسٹین گن لی، پھر گواہ نے کہا بیان درست کریں وہ اصل میں جسٹس جمیل حسین رضوی کہناچاہتا تھا، اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا ابھی چیف جسٹس کی باری نہیں آئی؟ جس پر بھٹو نے جواب میں کہا کہ باری آئے گی۔
منظور ملک نے مزید بتایا کہ اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا ایسا کچھ ہوا تو تم ذمہ دار ہو، چیف جسٹس نے کہہ دیا مجھے کچھ ہوا تو اس کو پکڑ لینا، تو جب آپ کسی کے خلاف ایسا کہہ رہے ہیں پھر اس کا ٹرائل بھی کریں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس مکالمے کا آغاز چیف جسٹس نے خود کیا تھا باری کا ذکر کر کے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ ساری بات آرڈر میں بھی لکھی گئی ہیں؟
منظور ملک نے کہا کہ یہ اگر میرے بارے میں ابھی کہہ دیں تو مجھے بھی پکڑ کر لے جائیں گے، چاہیں تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری وجہ سے کبھی یہ نہیں ہوتا۔
منظور ملک نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اس گواہ نے کہا اداکار محمد علی کے لیے بھی یہ اسٹین گن استعمال ہوئی۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اداکار محمد علی کو کیوں مارنا تھا اس سے کیا تعلق تھا؟کیا وہ وعدہ معاف گواہ یہ بتا رہا تھا کہ وہ ہٹ مین تھا جو بھی کسی کے خلاف بات کرے اسے مارتا تھا؟
منظور ملک نے کہا کہ وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اس دور میں ایسے واقعات ہو رہے تھے یہ کوئی اکیلا کیس نہیں تھا، کار سواروں میں سے احمد رضا قصوری کے علاوہ کوئی کٹہرے میں نہیں آیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ کیا کیس کے شکایت کنندہ کا کوئی بیان ریکارڈ ہوا تھا؟ منظور ملک نے بتایا کہ وہ تو واپس پیپلزپارٹی میں بھی چلے گئے تھے 77 میں ٹکٹ بھی مانگ رہے تھے، باہر جا کر بھٹو کے حق میں باتیں بھی کرتے رہے ریکارڈ پر ہیں، ٹکٹ انہیں الیکشن میں نہیں ملا تھا۔
جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ شکایت پھر دوبارہ کب درج کرائی گئی؟
عدالتی معاون نے بتایا کہ کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، مارشل لا کے بعد دوبارہ معاملہ چل پڑا۔
بعد ازاں عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کل 11:30 تک ملتوی کردی، کل بھی عدالتی معاون منظور ملک دلائل جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس کو صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے، جج کے سامنے دو ہی سوال ہوتے ہیں کہ جرم ہوا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے،کیا کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں؟
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین اور خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہوگئے تھے، بعد ازاں عدالت نے سماعت 27 فروری تک مکتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ 20 فروری کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں؟
انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے؟
عدالتی معاون نے دلیل دی کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا کہ کوئی تعصب کا شکار ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔
مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
پس منظر
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟