’ملک میں بے یقینی بڑھے گی‘، سیاستدان صرف اس بات پر متفق !
ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما کسی اور بات پر اتفاق کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں مگر اس بات پر متفق ضرور ہیں کہ آنے والے دن ملک میں بے یقینی پیدا کریں گے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے بلاواٹنک اسکول آف گورنمنٹ کے زیرِاہتمام، انتخابات کے بعد ملکی حقائق اور آئندہ کی صورتحال پر پینل کی گفتگو میں حصہ لیا جہاں وہ ایک صفحے پر نظر آئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر عدیل ملک اور پروفیسر مایا ٹیوڈور کی جانب سے موڈریٹ کی جانے والی پینل کی گفتگو میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماؤں نے آن لائن شرکت کی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال سے انتخابات کی قانونی حیثیت، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی جماعت کے روابط، ماضی میں ان کی جماعت کی جانب سے لگائے جانے والے نعرے ’ووٹ کو عزت دو‘ اور عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف جاری کریک ڈاؤں کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔
طلبہ نے پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر سے اس حوالے سے سوالات کیے کہ کیا پی ٹی آئی بحران سے نکل چکی ہے اور کیا ان کی جماعت ایک مربوط سیاسی قوت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق رہنما اور سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی پینل کا حصہ بنے جنہوں نے بلوچستان اور سندھ میں جاری مظاہروں سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نتائج کے حوالے سے درپیش چینلجز کے حوالے سے مؤقف اپنایا کہ یہ ایسے سیاسی بحران کا عندیہ ہے جو قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
انہوں نے کہا ’سیاسی بے یقینی برقرار رہے گی جبکہ آگے بڑھنے کے لیے راستہ ہموار نہیں۔ ملک ابھی آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پروگرام مکمل کرنے ہی والا ہے اور اسے تقریباً 6 ارب ڈالرز کے ایک نئے پروگرام کی ضرورت ہوگی جس سے عوام کے لیے مزید سخت حالات پیدا ہوں گے‘۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی جانب سے بنائی جانے والی مخلوط حکومت ’ایک غیرمقبول حکومت ہوگی جس کے پاس حکومت میں رہنے کی ساکھ نہیں ہے‘۔
حماد اظہر نے انتخابات میں اپنی جماعت کی کامیابی پر گفتگو کرتے ہوئے اسے ’ جبر اور خوف کے حربوں کے خلاف پاکستانی عوام کی مزاحمت’ قرار دیا۔ انہوں نے بار بار مبینہ انتخابی فراڈ کی بات کی اور کہا کہ ’دھاندلی کرکے حاصل ہونے والے نتائج کو عام بنایا جارہا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جدید معاشرے میں بلیک آؤٹ اور سینسر شپ کی گنجائش نہیں۔ معاشرے میں خوف پھیلانے کی یہ کوشش کام نہیں کرے گی۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کو حراست میں لیا گیا، جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر تشدد کیا گیا، میڈیا سے بلیک آؤٹ کیا گیا اور انہیں روپوش ہونے پر مجبور کیا گیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی عوام نے جبر کے سامنے گُھٹنے نہیں ٹیکے‘۔
انتخابات کو ’پُرامن انقلاب‘ قرار دیتے ہوئے حماد اظہر نے اصرار کیا کہ ان کی جماعت نے ’قومی اسمبلی کی 183 نشستیں جیتی ہیں‘ لیکن ’فارم 47 میں دھاندلی کرکے منظرنامہ بدلا گیا‘۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستانی عوام ’اپنے نمائندہ اداروں پر سے امید کھو رہے ہیں‘ اور اس حوالے سے انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کا نام بھی لیا۔
حماد اظہر نے مؤقف اپنایا کہ ’عوام ریاست سے مایوس ہیں جوکہ خطرناک امر ہے۔ ہمیں کام کرنے کے لیے ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جہاں کئی سیاسی جماعتیں شریکِ اقتدار ہوں۔ معاشی چینلجز کی وجہ سے عوام پہلے ہی غم و غصے کا سامنا کررہے ہیں‘۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے زور دیا کہ ’کوئی بھی ادارہ پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکتا‘، اور پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں کے شریکِ اقتدار ہونے کے نظریے کی بات کرتی ہے تو اس حوالے سے ’موافق ہونا اور تسلیم کرنے کا عنصر ضروری ہے‘۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو آپ بدعنوان ہیں، غدار ہیں۔ وہ کسی جماعت کے لیے گنجائش ہی نہیں چھوڑتے‘۔
’آج اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگانے والی جماعت 2017ء میں اسی اسٹیبلشمنٹ کا پیادہ تھی جس نے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا تھا۔ چار سال تک اس جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کو ملک چلانے کے لیے فری ہینڈ دیا‘۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’جب پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر تھے تب آرمی چیف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بریفنگ دینے آئے لیکن عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔ حتیٰ کہ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ضم کیا تب بھی انہوں نے ہمارے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا۔ پی ٹی آئی کا یہ سمجھنا کہ وہ تنہا حب الوطنی کے نمائندے ہیں، ایک مسئلہ ہے‘۔
دھاندلی کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے اسے ’خیال اور حقیقت کے درمیان فرق‘ اور ’سوشل میڈیا کی کامیابی‘ کے طور پر اخذ کیا ساتھ ہی اصرار کیا کہ اگر فارم 45 پر نتائج مختلف ہیں تو اسے عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
پینل نے پاکستان کے عوامی اور ملٹری اداروں کے درمیان اقتدار کے توازن کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ جہاں حماد اظہر نے اپوزیشن جماعتوں پر پیشگی وعدوں کے باوجود فوجی حمایت حاصل کرنے کا الزام لگایا وہیں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایسے سیاسی عدم استحکام کی واپسی پر افسوس کا اظہار کیا جس نے 1990ء کی دہائی کی یاد تازہ کردی۔
سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’جن جماعتوں نے کہا کہ وہ حمایت کے لیے فوج کی طرف نہیں دیکھیں گی، انہوں نے نہ صرف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ امید ظاہر کی کہ اس سے انہیں انتخابات جیتنے میں مدد ملے گی‘۔
پینل کے اراکین نے اداروں اور انتخابی عمل پر عوامی اعتماد کے خاتمے پر بھی روشنی ڈالی اور پاکستانی عوام کی شکایات دور نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ نتائج سے بھی متنبہ کیا۔
احسن اقبال نے انتخابی عمل کا احترام کرنے پر زور دیا اور ’بعض سیاسی دھڑوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تفرقہ انگیز بیان بازی‘ کی مذمت کی۔
حماد اظہر نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ خود کو پردے کے پیچھے رکھتی ہے اور ’پولیس، ایف آئی اے سے اپنے کام کرواتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آگے بڑھنے کا واحد راستہ عوام پر اعتماد کرنا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کے فیصلے خود لے سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی مستقبل کی قیادت کے لیے ایک نرسری کا کام کررہی ہے۔ عوامی جذبات اس قدر مضبوط ہیں کہ یہ نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کی جماعت ہے۔ میں نے پی ٹی آئی کی لچک، برداشت اور نچلی سطح سے اس کے رہنماؤں کو پارٹی میں نمایاں ہوتے دیکھا ہے‘۔
اس موقع پر طالب علم نے اہم سوال کیا کہ کیا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا جس پر احسن اقبال نے ’مودبانہ اختلاف کیا‘۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے آئین کی بالادستی برقرار رکھنے کے حوالے سے اصولی مؤقف اختیار کیا ہے۔
انہوں نے عمران خان کو ’فاشسٹ پارٹی لیڈر‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور ان کی حمایت کرنے والوں سے سوال کیا کہ انہوں نے عثمان بزدار اور علی امین گنڈاپور جیسے لوگوں کو وزیراعلیٰ کیوں تعینات کیا۔
احسن اقبال نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی کے لوگوں میں اتنی نفرت بھر چکی ہے کہ وہ ہر کسی کے سامنے اس کا گلہ کرنا شروع کردیتے ہیں‘۔