• KHI: Zuhr 12:23pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:59am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:23pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:59am Asr 3:22pm

گزشتہ انٹرویو میں جنرل (ر) فیض حمید کا نام غلطی سے لے لیا، مولانا فضل الرحمٰن

شائع February 16, 2024
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نےکہا ہے کہ گزشتہ روز انٹرویو میں جنرل (ر) فیض حمید کا نام غلطی سے لے لیا تھا۔

نجی ٹی وی چینل ’جی ٹی وی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں، تاہم اس معاملے کو زیادہ زیر بحث لانے کے بجائے تاریخ کے حوالے کیا جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ ہمارے اور تحریک انصاف کے درمیان تلخیوں کے پہاڑ ہیں، میں اختلافات کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں ہوں مگر تلخیوں کو دور کرنا آسان کام نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کہیں بھی انتخابات ٹھیک طریقے سے نہیں ہوئے ہیں، تحریک انصاف وفد سے اچھے ماحول میں بات ہوئی، ہم نے تحریک انصاف وفد سے کہا کہ خیبرپختنوخوا میں بھی دھاندلی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سما ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، لیکن میں نے اپنے دوستوں کے لیے اور وحدت کے لیے اپنے مؤقف اور رائے کی قربانی دی تھی، عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، جنرل (ر) فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا سسٹم کے اندر رہ کر آپ جو کرنا چاہیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا لیکن سسٹم سے باہر جاکر نہیں، میں نے اس سے انکار کردیا تھا لیکن پھر جب پی ٹی آئی کے لوگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی ٹوٹ کر آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے۔‘

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا تھا کہ ’اگر اس وقت میں عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ مولانا نے عمران خان کو بچا لیا، عدم اعتماد سے متعلق جنرل (ر) فیض اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے کہا گیا کہ آپ نے ایسا کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے۔‘

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024