سرکس میں خوش آ مدید
پاکستان میں تفریح کو افاد یت، اہمیت اور معیار کی کسوٹی پر جانچا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملکی میڈیا کو اپنے حریفوں کے مقابلے کیلیے محنت کرنا چاہیے۔
مشکل ہی سے کوئی ایسا دن گزر پاتا ہے ان پروگراموں کو دیکھ کر جب عوام کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے نہ رہ جاتے ہوں جنہیں ہمارے ٹی وی اسٹار ناظرین کے لئے موزوں اور اخلاقی سمجھتے ہیں ۔
پہلے خبروں کو پیش کرنے کے انداز پر سوالات اٹھائے جاتے رہے۔ یہ تنقید ہوتی رہی کہ تشدّد کو بلا روک ٹوک دکھایا جاتا ہے اور تشدّد کا نشانہ بننے والوں کی فلم بندی کرتے وقت انتہائی سنگدلی اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
لیکن بعد آزاں، خبروں کے شعبے پر اعتراضات کو کسی حد تک ظابطہ اخلاق کے قوانین کے ذریعے کم کیا گیا تو اب اینکرز نے مرکزی اسٹیج سنبھال لیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے سرکس سج گیا ہو۔
اس پروگرام پر ہی اک نظر ڈالیے جو آجکل توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ایک ٹی وی چینل کی خاتون اینکر اپنےشو کو مذہبی رنگ دینا چاہتی تھیں اور مذہب کی اس سے اچھی کیا خدمت ہو سکتی تھی کہ ایک شخص کے اسلام قبول کرنے کو براہ راست دکھایا جائے۔
چنانچہ پرا ئم ٹائم کے دوران ایک دینی رہنما کی سربراہی میں ایک نوجوان ہندو کے اسلام قبول کرنے کے مختلف مدارج دکھائے گئے۔ پروگرام کے اختتام پزیر ہونے تک ا یمان والوں کی فوج میں ایک اور سپاہی کا اضافہ ہو چکا تھا-
اسٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے حاظرین نے مبارک باد دینے کا سلسلہ شروع کیا اور مشورے دیے جانے لگے کہ اس نو مسلم کا اسلامی نام کیا رکھا جائے۔
اس موقع پر پروگرام کی میزبان خاتون نے جنہوں نے تکلفاَ سر پردوپٹہ اوڑھ رکھا تھا، اپنی بے معنی گفتگو بھی کی ۔ رہی بات ٹی وی چینل کی، تو اس نے یقینا خود کو ایک اور کامیاب پروگرام پیش کرنے پر مبارکباد دی ہوگی۔
(ریکارڈ کے لیے یہ بتا دوں کہ یہ اینکر صاحبہ وہی ہیں جن کے خیال میں ایک اچھے پروگرام کی خصوصیت یہ ہے کہ کراچی کے کسی پارک میں جوڑوں کا تعاقب کیا جاتے اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ شادی شدہ ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کیا انہیں " ڈیٹنگ " کرتے ہوے شرم نہیں آتی۔)
کوئی بھی ذی شعور انسان اس قسم کی دم بخود کر دینے والی بے حسی کے مظاہرے کی مخالفت کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
ایک نجی معاملے کو اسٹوڈیو میں اس طرح پیش کرنے کا معاملہ کیوں کر پیش آیا ؟ اور کیوں مذہب کو ٹی وہ ریٹنگ اور تشہیر کا آلہ کار بنایا جانے لگا ہے؟
کافی عرصہ پہلے، مغرب بالخصوص امریکہ میں نوے کی دہائی میں ٹی وی چینل مذہب کو اپنے کاروبار کے لئے ڈرامہ بنا کر پیش کر رہےتھے۔ ان میں سے بہت سے ڈھونگیوں کو بے نقاب کیا گیا، بعض کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی ہوئیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جب معاملہ پیسوں کا ہو تو ہچکچاہٹ کیسی، ایسے معاملے میں مقدّ س کچھ بھی نہیں رہتا۔
لیکن اس پروگرام کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس میں دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ ایک مخصوص برتاؤ رکھا گیا۔ اور ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ جو اس حوالے سے سوچتے ہوں کم ہی ہونگے-
اس پروگرام کے ذریعے اقلیتوں کو بتایا گیا کہ تمہارا درجہ وہ نہیں جوہمارا ہے ، تمہارا ا یمان وہ نہیں جو ہمارا ہے۔
اس کا نتیجہ کیا نکلا- پاکستان ہندو کونسل کے ایک رہنما رمیش کمار نے اے ایف پی کو بتا یا کہ اس سے مذہبی تعصب اور عدم برداشت میں اضافہ ہوگا
"ہمیں پہلے ہی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اغوا ہونے والے ہندؤں اور زبردستی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروانے کے واقعات کی جانب کم توجہ دیتی ہے- "خدا را ہمارے ساتھ مزید ایسا نہ کیجئے کہ ہم خود کو اپنے ہی ملک میں اجنبی سمجھنے لگیں"۔
میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی کہ صورت حال کتنی بدتر ہو سکتی ہے : اس پروگرام کی میزبان اور پروڈیوسرز نے کیا اس بات کا ادراک نہیں کیا تھا کہ ایک ایسے ملک میں اس طرح کے پروگرام کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں جہاں مذہبی انتہا پسندی پہلے ہی خطرناک حد تک سرا یت کر چکی ہے یا پھر انہوں نے یہ سب جانتےہوئے بھی ایسا کیا۔
اب سکّے کے ایک اور رخ کو دیکھئے - رمضان کے شروع ہونے سے چند ہفتے پہلے ایک پروگرام کا اشتہار ( پرومو )دکھایا جا رہا تھا جو توبہ سے متعلّق تھا اور اسے ایک فلمی شخصیت پیش کر رہی تھی اگرچہ یہ خاتون میزبان (اینکر) نہیں ہیں ۔
جہاں تک میں سمجھتی ہوں ان کا ماضی اور ان کی پروفیشنل زندگی کے واقعات کچھ ایسے نہیں تھے کہ قدامت پسندوں کی نظر میں خود انھیں اپنے بعض اعمال پر توبہ کرنی چاہیے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس پروگرام کا جو پرومو دکھایا گیا اس میں یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ ناظرین گویا اس تضاد سے واقف تھے اور انھیں دعوت دی گئی کہ وہ مذکورہ میزبان کے تعلق سے اسکے گناہ کی نوعیت پر غور کریں-
اس پروگرام کا پروموعوامی سطح پر مضحکہ خیز بن گیا اور اس کی وجہ یہ سوچ تھی کہ میزبان اور پروڈیوسرز کو خود مذہب کا احترام نہیں ہے۔
عین ممکن تھا کہ یہ شو چل جاتا اورمیزبان خاتون اس حوالے سے خود کوبا خبر ثابت کر پاتیں اور اپنے مہمانوں سے نمٹنے کی اہل ہوتیں لیکن ہمیں تو اس کا پتہ ہی نہ چل سکا کیونکہ پیمرا کا کمزور ادارہ اس موقع پرحرکت میں آ گیا۔
ادارے کے ایک افسر نے پریس کو بتایا کہ انھیں انٹرنیٹ پر درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ اس پروگرام کو منسوخ کر دیا جائے - پروڈکشن ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ اگر لوگ اس پروگرام کو نہیں دیکھنا چاہتے تو اس کو ختم کر دیا جائےگا اور بالا آخر یہی کچھ ہوا۔
مذہبی پروگراموں کو چھوڑ کر ہم کچھ اور بات کرتے ہیں۔ ان پروگراموں سے پہلے ایک میڈیا اسکینڈل بھی منظرعام پر آیا جس میں دو میزبانوں کو پروگرام کے دوران وقفے میں ایک بااثر کاروباری شخصیت سے گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا - جو ریکارڈنگ دکھائی گئی اس سے کم ازکم یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ بظاہر اس شخص سے "کڑی" پوچھ گچھ کا ڈھونگ رچایا گیا تھا۔
یہ تو محض چند مثالیں ہیں جن سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ میڈیا صنعت کے چند حلقے نا صرف پیسہ کمانے کیلیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں بلکہ وہ اپنے ناظرین کی توہین بھی کرتے ہیں – اور ان کے خلاف شاذ و نادر ہی کارروائی ہوتی ہے-
اب تقریبا ایک دہائی سے زیادہ کا عر صہ گزر چکا ہے جب مشرف کے دور اقتدار میں ملک کے میڈیا کو آزادی دینے کی پالیسی اپنا ئی گئی تھی۔
مگر مبصّرین میڈیا کی غلطیوں کو یہ کہہ کر در گزر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابھی یہ صنعت نئی ہے، لیکن اس طرح کا دفاع کب تک چلے گا ؟
میڈیا بزنس حقیقی اور واضح زمینی اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ یہ رائے عامہ بنانے اور تبدیل کرنے کا اہل ہے۔
پاکستان میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو میڈیا کو تاریکی کی جانب لے جا رہے ہیں -کم سے کم ان لوگوں کو جو خود کو آگاہی کا محافظ سمجھتے ہیں انہیں اپنا یہ فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ آنے والے مستقبل میں میڈیا اپنے اوپر پابندیاں نہ لگوا لے۔