سیاسی جماعتوں کے منشور میں تعلیم سے متعلق وعدے کتنے حقیقت پسندانہ ہیں؟
کیا سیاسی جماعتوں کے منشور سے ان کے ارادے ظاہر ہوتے ہیں؟ ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں بہت مشکل سے ہی اپنے منشور پر عمل کرتی ہیں۔ لیکن منشور یہ ضرور ظاہر کرتے کہ سیاسی جماعتوں کے مطابق لوگ ان کے مشور کے حوالے کیا چیزیں جانیں یا سوچیں۔
کیا سیاسی جماعتوں کے منشور کو صرف اس بنیاد پر پرکھنا چاہیے کہ ان میں کیا وعدے کیے گئے ہیں یا اس بنیاد پر پرکھنا چاہیے کہ ان میں جو وعدے کیے گئے ہیں وہ کس حد تک حقیقت کے قریب ہیں اور ان میں جن منصوبوں کا ذکر کیا گیا، پھر چاہے وہ ابتدائی حد تک ہی کیوں نہیں، ان وعدوں کو پورا کرنے کے حوالے سے انہوں نے کیا کام کیا ہے؟
اگر ہم صرف ان کے کیے گئے وعدوں پر بھروسہ کریں تو ایک پارٹی جس کا ان وعدوں پر پورا اترنے کا کوئی ارادہ نہ ہو تو وہ انتخابی منشور میں چاند توڑ لانے جیسے بڑے بڑے وعدے کرسکتی ہے۔ اگر حقیقت پسندی کا امتحان ہو تو چاند توڑ کر لانے کے وعدے کرنے والی جماعتوں کے مقابلے میں تو حقیقت پسند منصوبے بہت معمولی ہی لگیں گے۔ ہماری موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے جو طریقے تجویز کررہی ہیں ان کا جائزہ لیں تو بہترین آپشن یہی ہے کہ جو وعدے کررہے ہیں، ان کا خیال رکھیں۔ چونکہ منشور میں منصوبوں کا ذکر نہیں کیا جاتا اس لیے یہاں ہمیں اندازہ لگانا ہوتا ہے۔
مجھے چار سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے انتخابی منشور میں تعلیم کے سیکشن پر نظر ڈالنے کا موقع ملا۔
چاروں نے کہا ہے کہ وہ تعلیم پر ہونے والے حکومتی اخراجات کو بڑھا کر جی ڈی پی کا 4 سے 5 فیصد کریں گے۔ موجودہ حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بھی کم ہیں۔ تو ان تمام جماعتوں نے اپنے منشور میں کم از کم 100 فیصد اضافے کا وعدہ کیا ہے۔ ممالک کے لیے عام طور پر تعلیم اخراجات کے لیے جی ڈی پی کا کم سے کم 4 فیصد تجویز کیا جاتا ہے۔
لیکن ماضی کے منشوروں میں کیے گئے متعدد وعدوں کے باوجود ہم کبھی بھی اس ضمن میں 2 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ جب ایک ملک ٹیکسوں کی مد میں میں جی ڈی پی کو صرف 7 سے 10 فیصد بڑھائے گا تو کیسے اس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تعلیم کے اخراجات کو 4 فیصد تک بڑھائے گا؟ کیا تمام سیاسی جماعتیں تعلیم پر کیے جانے والے اخراجات میں اضافے کے حوالے سے صرف زبانی باتیں کررہی ہیں؟ یہ امکان سے زیادہ حقیقت معلوم ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے تعلیم کے حقوق کے نفاذ کے حوالے سے کچھ سوچا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ’آئین کے آرٹیکل 25اے کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کریں گے‘۔ اور وہ بات کرتے ہیں کہ ہر بچے سے 30 منٹ کی مسافت پر پرائمری اسکول جبکہ 60 منٹ کی مسافت پر سیکنڈری اسکول ہوگا (تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا پیدل مسافت کی بات کی گئی ہے یا یہ کسی سواری کی مدد سے طے کیا جانے والا فاصلہ ہے)۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا منشور مایوس کن ہے۔ اس میں 25اے کی بات نہیں ہوئی، صرف اتنا درج ہے کہ وہ پنجاب میں 2018-2013ء تک کیے گئے اپنے تعلیمی اقدامات کو وسعت دیں گے جن میں اسکالر شپ اسکیمز، دانش اسکولز اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ شامل ہیں۔
یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ پی ٹی آئی اپنے یکساں نصاب کے اصرار سے ہٹ کر یکساں بنیادی نصاب کی جانب آگئی ہے۔ انہوں نے دوپہر کے کھانے اور مفت کتابوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس منشور میں آرٹیکل 25اے کا کوئی تذکرہ نہیں۔
جماعت اسلامی کا منشور زیادہ تفصیلی ہے لیکن یہ الجھا بھی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ تعلیم کو سب کی رسائی میں لانا چاہتے ہیں لیکن وہ ساتھ ہی سب کے لیے یکساں نظامِ تعلیم کی بات بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے، اس حوالے سے انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم کا شعبہ صوبے کی نہیں بلکہ وفاق کی ذمہ داری ہو۔ وہ اسلامی اور پاکستانی نظریے کو نصاب کا مرکز بنانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ تعلیم کا معیار قرآن اور سنت کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ انہوں نے کو-ایجوکیشن ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اسلامیات اور مطالعہ پاکستان تو پہلے سے ہی لازمی مضامین ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ان مضامین میں بہت سا نیا مواد شامل کیا تھا۔ یکساں قومی نصاب کی وجہ سے انگریزی اور اردو سمیت دیگر مضامین میں بھی مذہبی مواد کو شامل کیا گیا۔ ناظرہ کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ بڑی جماعتوں کے لیے ترجمے کے ساتھ قرآن کی تعلیم کو بھی شامل کیا گیا۔ جماعت اسلامی کو مزید کیا چاہیے؟ اس سے زیادہ تعلیمی نظام کو اسلامی اور قومی کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ بہت سے تعلیمی ماہرین پہلے ہی کہتے ہیں کہ ہمارے مین اسٹریم اسکولز کو مدرسے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کے لیے جامعات بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی نے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ پھر سے وہی بات، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی کہ بھلا یونیورسٹیز بنانا کیسے ہائر ایجوکیشن کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی 250 یونیورسٹیز ہیں اور ملک کے نوجوان طبقے میں بےروزگاری کی شرح بھی کافی بلند ہے۔ کیا ایسے میں ہماری ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کا معیار بہتر بنائیں؟ اور اگر وسعت دینا واقعی ضروری ہے تو 250 میں سے بہت سے اداروں کو وسعت دی جاسکتی ہے، نئے تعلیمی ادارے بنانے کا وعدہ اتنا اہم کیوں ہے؟
مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے منشور انتہائی مایوس کُن ہیں۔ تعلیمی اخراجات جی ڈی پی کے 4 سے 5 فیصد بڑھانے کا وعدہ تو پرانا ہے جس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہماری موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ تو ناممکن لگتا ہے کہ کوئی بھی حکومت مستقبل میں اس پر عمل درآمد کروا پائے گی۔
جماعت اسلامی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو وسیع پیمانے پر تعلیم تک رسائی اور تعلیم تک رسائی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو توجہ طلب ہے اور ہمیں اس حوالے سے کامیابی بھی ملی ہے (پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن) لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ حکومت تعلیم کی فراہمی میں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے یا شراکت داری کی آڑ میں نجکاری کو متعارف کروانے کے لیے بھی اس طرح کی شراکت داری کو استعمال کرسکتی ہے۔ فریقین کو ان خطرات کے حوالے سے خبردار رہنا ہوگا۔
پی پی پی اور جماعت اسلامی نے آرٹیکل 25اے کے نفاذ کے علاوہ کوئی حقیقی وعدہ نہیں کیا۔ پی پی پی وہ واحد جماعت ہے جس نے واضح الفاظ میں یہ وعدہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے منشور میں ذکر کیے گئے زیادہ تر وعدوں کے حوالے سے اقدامات ان کے حکومتی دور میں ہی کیے گئے تھے۔ لیکن اس وقت ان اقدامات نے تعلیم تک رسائی یا رسائی کا معیار بہتر بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا تھا تو اب وہ کیسے اسے بہتر کرسکتے ہیں؟
اگر منشور تعلیمی مسائل اور مجوزہ حل پر سیاسی جماعتوں کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں تو تعلیم کا شعبہ یونہی زبوں حالی کا شکار رہے گا اور 2 کروڑ 60 لاکھ بچے ایسے ہی اسکول جانے سے محروم رہیں گے اور جو اسکول جارہے ہیں انہیں یونہی غیر معیاری تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیے۔