• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کیلئے اسٹیٹ ڈیفنس کونسل مقرر

شائع January 27, 2024
—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این
—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این

خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے لیے اسٹیٹ ڈیفنس کونسل مقرر کر دیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے گزشتہ روز سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔

حکم نامے کے مطابق ملزمان کے وکلا کے نہ آنے پر ملک عبدالرحمٰن کو بانی پی ٹی آئی اور حضرت یونس کو شاہ محمود قریشی کا ڈیفنس کونسل مقرر کیا گیا، جو گواہان پر جرح کریں گے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ملزمان کی جانب سے کوئی بھی سینئر وکیل عدالت پیش نہیں ہوا، کیس کی سماعت ساڑھے بارہ بجے دوبارہ شروع کی گئی، تب بھی کوئی سینئر وکیل پیش نہ ہوا۔

مزید کہا گیا کہ حقائق اور حالات کے پیش نظر اور ملزمان کے وکلا کو کئی مواقع فراہم کیے گئے، اس عدالت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ ملزمان کے لیے اسٹیٹ ڈیفینس کونسل مقرر کرے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو ملزمان کی جانب سے نمائندگی کے لیے اسٹیٹ ڈیفینس کونسل مقرر کرنے کے لیے ای میل کے زریعے وکیلوں کی فہرست طلب کی گئی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے دفتر سے بذریعہ خط جواب دیا گیا۔

مزید کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے قابل وکلاء کے نام فراہم کیے، اب وہ ملزمان بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے کیس کی نمائندگی کریں گے، ملک عبدالرحمن ایڈووکیٹ کو بانی پی ٹی آئی کے لیے اور حضرت یونس ایڈووکیٹ کو شاہ محمود قریشی کے لیے اسٹیٹ ڈیفنس کونسل مقرر کیا گیا ہے۔

حکم نامے کے مطابق اب یہ دونوں اسٹیٹ کونسل ملزمان کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے آج (27 جنوری) گواہان پر جرح کریں گے۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے۔

اس سے قبل 8 جنوری کو اسلام آباد کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی رہائی کی روبکار جاری کردی تھی۔

تاہم، عمران خان توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہونے کے باعث رہا نہیں ہو سکے تھے۔

17 نومبر کو سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

22 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کی تھی۔

سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

گزشتہ سال 9 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کی تھیں جس کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا گیا تھا۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھے۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024