• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے والی معروف خواتین

ملکی سیاست میں مقبول خواتین سیاستدان جو عام انتخابات میں اپنے مخالف امیدواروں کو مات دےکر نہ صرف قومی اسمبلی میں پہنچیں بلکہ آئینی عہدوں پر بھی فائز رہیں۔
شائع January 29, 2024

قومی انتخابات میں خواتین کا کسی انتخابی حلقے سے میدان میں اترنا غیر معمولی تو ہوسکتا ہے لیکن یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ سابق وزرائے اعظم کی شریک حیات، بیٹی یا پھر دیگر سیاست دان خواتین عام انتخابات میں اپنے مخالف مرد امیدوار کو مات دےکر نہ صرف قومی اسمبلی میں پہنچیں بلکہ اہم آئینی عہدوں پر بھی فائز رہیں۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بےنظیر بھٹو نے چار مرتبہ انتخاب لڑا جن میں سے دو مرتبہ وہ وزیراعظم بنیں اور دو ہی مرتبہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف یعنی اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بےنظیر بھٹو کی والدہ اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو بھی چار مرتبہ اپنی بیٹی بےنظیر بھٹو کے ساتھ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکی ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو واحد سیاسی شخصیت تھیں جن کے شوہر اور بیٹی دونوں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ نصرت بھٹو کے علاوہ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز بھی رکن قومی اسمبلی رہیں اور اب ان کی بیٹی مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے ساتھ انتخابی امیدوار کے طور پر حصہ لیں گی۔

مریم نواز کے مقابلے تحریک انصاف کی طرف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور نو مئی کے مقدمات میں گرفتار صنم جاوید امیدوار ہیں۔ اُن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے لیکن اب سپریم کورٹ نے صنم جاوید کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ہے اور اُن کا نام بیلٹ پیپر میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔

  نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو چار، چار بار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے منتخب ہوئیں
نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو چار، چار بار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے منتخب ہوئیں

نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے فیصلے کے بعد کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی خالی ہونے والی نشست پر انتخاب لڑا۔ کلثوم نواز کی علالت کی وجہ سے اُن کی بیٹی مریم نواز نے اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلائی۔ اگرچہ کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی تو بن گئیں لیکن لندن میں زیرِعلاج ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھا سکیں۔ ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہوا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی خاتون امیدوار کے مدمقابل خاتون امیدوار تھیں۔

  نواز شریف کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کلثوم نواز نے حصہ لیا
نواز شریف کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کلثوم نواز نے حصہ لیا

1993ء میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو جس قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، اسی اسمبلی میں ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے علاوہ ان کے شوہر آصف علی زرداری اور سُسر حاکم علی زرداری بھی ارکانِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

ملک کی انتخابی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو 1970ء سے 2018ء یعنی تقریباً 50 برسوں میں 64 خواتین نے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں پہلی خاتون امیدوار کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھنے والی عبدالولی خان کی اہلیہ اور عبدالغفار خان کی بہو نسیم ولی خان تھیں۔ نسیم ولی خان، ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں اپنے شوہر کی گرفتاری کے بعد سیاست میں سرگرم ہوئیں اور خیبرپختونخوا کے دو حلقوں سے انتخاب لڑا بلکہ دونوں نشستوں پر کامیاب بھی ہوئیں۔ یہ وہی وقت تھا جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی تھی اور اس کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان جیل میں تھے۔

  نسیم ولی خان 1977ء کے عام انتخابات میں پہلی خاتون امیدوار تھیں
نسیم ولی خان 1977ء کے عام انتخابات میں پہلی خاتون امیدوار تھیں

ڈاکٹر اشرف عباسی 1970ء میں پیپلز پارٹی کی طرف سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور پھر انہیں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی چنا گیا۔ 11 برس بعد 1988ء میں ڈاکٹر اشرف عباسی نے سندھ کے قومی اسمبلی کے حلقے سے انتخاب لڑا اور دوبارہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس طرح ڈاکٹر اشرف عباسی واحد رکنِ قومی اسمبلی تھیں جو ایک مخصوص نشست اور دوسری مرتبہ جنرل نشست پر انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی پہنچیں۔ انہیں دونوں مرتبہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ ملا۔ ڈاکٹر اشرف عباسی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر تھیں۔

  ڈاکٹر اشرف عباسی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر تھیں
ڈاکٹر اشرف عباسی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر تھیں

سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا واحد خاتون ہیں جو سب سے زیادہ مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں انہیں اسپیکر قومی اسمبلی منتخب کیا گیا اور انہیں ملک کی پہلی خاتون اسپیکر قومی اسمبلی بنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا 1997ء سے 2018ء تک پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنیں۔

  فہمیدہ مرزا پاکستان کی پہلی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں
فہمیدہ مرزا پاکستان کی پہلی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں

فہمیدہ مرزا کے بعد پنجاب سے غلام بی بی بھروانہ چار مرتبہ جنرل نشست پر انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر بیگم عابدہ حسین اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما تہمینہ دولتانہ تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ بیگم عابدہ حسین نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا اور جس اسمبلی کی وہ پہلی مرتبہ رکن بنیں۔ اسی اسمبلی کے پہلے اسپیکر ان کے شوہر فخر امام تھے۔ حنا ربانی کھر نے بھی دو مرتبہ اپنی آبائی نشست پر انتخاب لڑا۔ اس طرح وہ 2002ء اور پھر 2008ء میں نہ صرف رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں بلکہ پہلی خاتون وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

جہاں سیاست دان خواتین نے مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد براہ راست انتخابات میں حصہ لیا وہیں سابق وزرا حنا ربانی کھر اور تہمینہ دولتانہ دو بار جنرل نشست پر انتخاب لڑنے کے بعد مخصوص نشست پر بھی رکن قومی اسمبلی بنیں۔ تہمینہ دولتانہ 2013ء اور حنا ربانی کھر 2018ء میں مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی پہنچیں۔ فردوس عاشق اعوان، نفیسہ شاہ، شازیہ مری اور شائستہ پرویز ملک پہلے مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور پھر جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔

  حنا ربانی کھر 2 مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑ کر کامیاب ہوچکی ہیں
حنا ربانی کھر 2 مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑ کر کامیاب ہوچکی ہیں

مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز ملک کی اہلیہ شائستہ پرویز نے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے براہ راست انتخاب لڑا اور رکن قومی اسمبلی بنیں۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے مسلم لیگ (ن) نے انہیں امیدوار کھڑا کیا اور وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں اسلم گل کو ہرا کر منتخب ہوئیں۔ ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار مزدور رہنما غلام فاطمہ تھیں۔

کلثوم نواز کی رشتہ دار اور مشہور پہلوان زبیر جھارا کی بیوہ سارہ زبیر نے اپنے کزن کے شوہر نواز شریف کے مدمقابل کاغذات نامزدگی جمع کروائے لیکن انتخاب نہیں لڑا۔ 2013ء میں سارہ زبیر سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔

گزشتہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ خواتین امیدوار پنجاب اور اس کے بعد سندھ سے منتخب ہوئیں۔ مجموعی طور پر سب سے زیادہ خواتین 2008ء میں منتخب ہوکر قومی اسمبلی پہنچیں، یہ وہی وقت تھا جب مرد ارکان اسمبلی کی عدالت سے نااہلی کے فیصلوں کی وجہ سے خواتین کو انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا۔

8 فروری کے انتخابی معرکے کے لیے بھی خواتین امیدوار تیار ہیں۔ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد اور عالیہ حمزہ تو جیل سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ یاسمین راشد سابق وزیراعظم نواز شریف کے مدمقابل ہیں۔ عالیہ حمزہ کا مقابلہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف سے ہے۔ عالیہ حمزہ اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔

  عالیہ حمزہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیل سے انتخاب لڑیں گی
عالیہ حمزہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیل سے انتخاب لڑیں گی

ڈاکٹر یاسمین راشد چوتھی مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار ہیں اور اب دوسری مرتبہ ان کا مقابلہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ہے۔ 2013ء میں ان کا مقابلہ نواز شریف سے ہوا جبکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد 2017 میں ضمنی انتخاب میں انہوں نے نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کے مدمقابل انتخاب لڑا اور انہیں شکست ہوئی۔ 2018ء میں ڈاکٹر یاسمین مخصوص نشست پر رکن پنجاب اسمبلی بنیں اور پھر پنجاب کابینہ میں شامل ہوئیں۔

  گجرات کی نشست پر قیصرہ الہیٰ کا مقابلہ اپنے بھتیجے سالک حسین سے ہوگا
گجرات کی نشست پر قیصرہ الہیٰ کا مقابلہ اپنے بھتیجے سالک حسین سے ہوگا

سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر پرویز الہیٰ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر اب ان کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں اور ان کا مقابلہ اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے سابق وفاقی وزیر سالک حسین سے ہے یعنی پھوپھی اور بھتیجا آمنے سامنے ہیں۔ ان کی بہن سمیرا الہیٰ بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار ہیں۔ ممتاز سیاست دان چوہدری ظہور الہیٰ کی دونوں بیٹیاں بھی تحریک انصاف کی طرف سے انتخابی امیدوار ہیں۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔