معروف امریکی ادیب گور وائڈل نہ رہے
لاس اینجلس:معروف امریکی ادیب گور وائڈل چھیاسی برس کی عمر میں دنیا چھوڑ گئے۔ مشاہدات، سیاسیات اور جنس پر مبنی پچیس ناول لکھنے والے وائیڈل ہمہ جہت شخصیت تھے۔
بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے وائیڈل نے بھرپور ادبی، سیاسی اور سماجی زندگی بسر کی۔ ادبی ناقدین کی بڑی تعداد اُنہیں زندگی بھر تنقید کا نشانہ بناتی رہی اور وہ اعتراضات کا بہادری سے سامنا کرتے ہوئے بڑے ادیب کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے۔ انہیں امریکی عصرِ حاضر کا بڑا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز نے وائڈل کے بھتیجے کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے ہالی وڈ میں واقع اپنے گھر میں آخری سانسیں لیں۔ اطلاع کے مطابق انہیں نمونیے کی شکایت تھی، جو جاں لیوا ثابت ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی طبیعت کئی روز سے خراب تھی اور وہ گھر پر ہی زیرِ علاج تھے۔
گور وائڈل کے مقبول ترین ناولوں میں’بَر، ۱۸۷۶، لنکن، دی گولڈن ایج اور جنس کے موضوع پر مائیرا بریکنرج‘ شامل ہیں۔ انہوں نے پچیس ناول تخلیق کیے تھے۔ مختلف مضوعات پر دوسو سے زائد مضامین، فلم اسکرپٹ اور متعدد ڈرامے بھی تحریر کیے۔
گور وائیڈل اُنیس سو پچیس میں معروف امریکی سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔
وائیڈل نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران فوج میں شمولیت اختیار کی۔ اُن کا پہلا ناول 'ولیوا' اُنیس برس کی عمر میں شائع ہوا۔ یہ ناول اُن کی فوجی زندگی اور جنگِ عظیم دوم کے دوران ہونے والی تباہ کاریوں کے مشاہدات پر مشتمل تھا۔
اُن کا تیسرا ناول 'دی سٹی اینڈ دی پِلر' میں ہم جنس پرستی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ ناول کا مرکزی کردار مرد ہم جنس پرست تھا۔ سن انیسو اڑتالیس میں شائع ہونے والا یہ ناول امریکا میں بہت بدنام ٹھہرا۔ اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکی معاشرے میں یہ پہلا موقع تھا جب مرد ہم جنس پرستی کے موضوع پراتنا کھل کر لکھا گیا تھا۔
اس ناول کی اشاعت پر اُس وقت کے امریکی معاشرے میں اتنی تنقید کی گئی کہ کُتب فروشوں نے اس کا بائیکاٹ کردیا۔ کوئی اسے فروخت کے لیے دکان پر رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ سماجی اور ادبی حلقوں کی کڑی مخالفت اور تنقید وائیڈل کے لیے شہرت کی سیڑھی ثابت ہوئی مگر نقصان بھی ہوا۔ اس کے فوری بعد انہیں اصل نام سے لکھنے پر خوف محسوس ہوا۔ بعد کے کچھ برسوں تک انہوں نے فرضی نام سے لکھا۔
سن پچاس کی دہائی کے بعد حالات بدلے اور وہ ایک بار پھر اصل نام سے لکھنے لگے مگر انداز وہی پرانا رہا، جس پر انہیں تنقید کا ہدف بنایا جاتا تھا۔
انہوں نے کئی فلموں کے اسکرپٹ لکھے اور کلاسیکی فلم 'بن حُر' کے اسکرپٹ پر بھی انہوں نے خاصا کام کیا تھا۔
وائڈل کی ادبی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور تھی۔ ان پر تنقید کرنے والوں کی کمی نہ تھی اور انہیں پسند کرنے والے بھی تھوڑے نہ تھے۔
گوروائڈل امریکی سیاست کے معروف مبصر تھے۔ انہیں سیاست سے بہت دلچسپی تھی۔ انہوں نے دوبار کانگریس کی نشست کے لیے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ سیاست میں دلچسپی وائڈل کی خاندانی وراثت تھی۔
امریکی سیاست کے معروف کنیڈی خاندان سے ان کا گہرا نسلی تعلق تھا۔ وہ جیکی کنیڈی کے خاصے قریب تصور ہوتے تھے۔ رشتے میں جیکی کنیڈی ان کی سوتیلی بہن تھیں۔
سن اسّی کی دہائی کے اریب قریب ابراہام لنکن پر اُن کا ناول شائع اور ایک بار پھر وہ امریکی ادب کے اُفق پر گفتگو کا موضوع بن گئے۔ وائڈل اپنے عہد کے ادیبوں اور نقادوں سے خاصے شاکی تھے۔ معاصرین سے اُن کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے۔ اُن کے ہم عصر اور قدامت پسند تصور کیے جانے والے ادیبوں ولیم ایف بکلر جونیئر اور نورمن میلئر سے تو اُن کی ہمیشہ ادبی چقپلش رہی تھی۔
وائڈل نے ایک مرتبہ امریکا کے حوالے سے کہا تھا 'خشک لوگوں کی سرزمین مگر سچے لوگوں کا گھر' شاید امریکی سرزمین یہی 'خشکی' تھی کہ انہوں نے عمر کا بڑا حصہ اٹلی میں سمندر کنارے بنے شاندار اطالوی وِلا میں بسر کیا مگر وہ اپنے قریبی دوست آٓسٹن کی موت سے ذرا پہلے، سن دو ہزار تین میں مستقل طور پر واپس امریکا لوٹ آئے تھے۔ آسٹن کی عمر پچاس برس سے زیادہ تھی اور ان کا انتقال کینسر سے ہوا تھا۔