چین کی آبادی میں مسلسل دوسرے سال کمی ریکارڈ
چین کی آبادی میں مسلسل دوسرے سال کمی آئی ہے جس سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کو مستقبل میں ترقی کے خدشات کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق بھارت گزشتہ سال آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک قرار پایا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ یا 0.15 فیصد کم ہو کر ایک ارب 40 کروڑ رہ گئی، اس کے مقابلے میں بھارت کی آبادی اس وقت ایک ارب 42 کروڑ 5 لاکھ ہے۔
یہ کمی پچھلے سال ریکارڈ کی گئی کمی سے دو گنا زیادہ ہے، 2022 میں چین کی آبادی 8 لاکھ 50 ہزار افراد کی کمی کے ساتھ 1.41 ارب رہی تھی۔
ایک بچہ ایک خاندان کی پالیسی کے خاتمے کے باوجود 1961 کے بعد پہلی بار سال 2022 میں آبادی میں کمی آئی تھی، جس کے بعد 2021 میں تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
گزشتہ سال کل اموات 6.6 فیصد بڑھ کر 11.1 ملین ہوگئیں، کلچر ریولوشن کے دوران اموات کی شرح 1974 کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
چین کے مطابق موجودہ شرح پیدائش 6.39 فیصد ہے جو کہ سب سے کم ہے،اسی طرح جاپان کی شرح پیدائش 6.3 اور جنوبی کوریا کی 4.9 فیصد ہے۔
2021 میں تین بچے پیدا کرنے کی پالیسی کے اعلان کے بعد شرح پیدائش میں خاص تبدیلی نہیں آئی، جس کی وجہ چینی نوجوانوں بالخصوص خواتین ملک میں مہنگائی اور کیریئر پر توجہ دینے کو ترجیح دیتی ہیں۔
دوسری جانب چینی حکومت نے اپنے سرکاری ہدف کو پورا کرتے ہوئے 2023 میں ملکی معیشت میں 5.2 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم پراپرٹی کے بڑھتے ہوئے بحران اور کاروباری اعتماد اور سست عالمی معیشت کی وجہ سے چین کو ترقی کی رفتار کے حوالے سے خدشات برقرار ہیں۔
چین کے قومی ادارہ شماریات نے کہا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی جی ڈی پی میں بھی 2023 کے آخری تین مہینوں میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 5.2 فیصد اضافہ ہوا۔
کووڈ-19 کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے 2022 میں چین کی معیشت میں صرف 3 فیصد اضافہ ہوا تھا، 2022 کے آخر میں کووڈ پابندیوں میں نرمی کے بعد حکومت نے 5 فیصد ترقی کا ہدف مقرر کیا تھا۔