• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، سپریم کورٹ

شائع January 12, 2024
بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ فوٹو:ڈان نیوز
بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ فوٹو:ڈان نیوز

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی نشان بلے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے اور اگر انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور قانونی ٹیم، پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر علی خان، وکیل حامد خان، وکیل شعیب شاہین، پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، اس کے علاوہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو جواب دیا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔

بعدازاں مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

’3 دن تک کیس ملتوی کرنا ہے تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہوگا‘

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ مقدمے کے لیے کب تیار ہوں گے؟

جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کے لیے ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔

جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس صورت میں تیاری کیلئے کل تک کا وقت دیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے سوال کیا یہ بات درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟ تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعوی نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہوگا پہلے حق دعویٰ اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں۔

‏پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض کردیا

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کی تشکیل قانون طور پر درست نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ حقیقت درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل کے قابل سماعت ہونے کا اعتراض ہے تو حامد خان پہلے آپ دلائل دیں۔

‏پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض کردیا۔

تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کرسکتا، متاثرہ فریق نے اپیل کرنا ہوتی ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے حکم کا دفاع نہ کرے۔

تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ کیا کوئی جج بھی اپنے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے؟

کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کریں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائی کورٹ اپیل پر بھی آئے گا، الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔

جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہوسکتے،آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا۔

جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی۔

چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، انہوں نے سوال کیا کہ پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟

جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائی کورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں۔

جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آٸی کے پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات ملی ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ درخواستیں کس نے دائر کیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے۔

اس دوران اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اکبر ایس بابر فاونڈر ممبر پی ٹی آئی ہے، وہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے۔

جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ پی ٹی آئی کے ممبر کیوں نہیں؟ چیف جسٹس نے حامد علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فاونڈر ممبر تو میرے حساب سے کبھی ختم نہیں ہوتا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا انہوں نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی؟

جس پر حامد خان نے جواب دیاکہ یہ تو ایک اور بحث ہے کہ کون فاونڈنگ ممبر ہے کون نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ حامد خان صاحب کیا آپ تحریک انصاف کے فاونڈنگ ممبر نہیں ؟

تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ جی میں پارٹی کا فاونڈنگ ممبر ہوں۔

گُم نام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟ جسٹس مسرت ہلالی کا پی ٹی آئی سے سوال

سماعت میں وقفے کے بعد وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے، انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف نے آئین تو بہت اچھا بنایا ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کیس یہی ہے کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال پوچھا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کون کون لڑ سکتا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات صرف ممبران ہی لڑ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل کون ہیں؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے اسد عمر تھے اب عمر ایوب سیکریٹری جنرل ہیں، کس پر چیف جسٹس نے دوبارہ سوال پوچھا کہ کیا اسد عمر نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسد عمر تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں، اسد عمر سیکریٹری جنرل کیسے بنے الیکشن کمیشن ریکارڈ پر کچھ نہیں ہے۔

’ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں‘

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ جس پر تحریک انصاف کے وکلا نے جواب دیا کہ چمکنی کے گرائونڈ میں ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی نوٹیفکیشن ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہونگے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال پوچھا کہ چھوٹے سے گم نام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟

چیف جسٹس نے ایک بار پھر سوال کیا کہ ریکارڈ پر تو کچھ نہیں ہے کہ پشاور میں جس جگہ پارٹی الیکشن ہوا، پارٹی ارکان کو کیسے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟ پی ٹی آئی وکلاء جواب نہیں دینا چاہتے تو کیس کو آگے بڑھاتے ہیں، پارٹی ممبران کو تو معلوم ہونا چائیے کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے مؤقف اپنایا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی تھے، ویڈیو موجود ہے عدالت میں چلا لیں۔

جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں۔

عدالت نے نیاز اللہ نیازی کو دلائل دینے سے روک دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آپ وکیل نہیں فریق ہیں، حامد خان سینئر وکیل ہیں ان سے اجازت لے کر بات کریں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2 دسمبر سے پہلے پی ٹی آئی کے انتخابات کب ہوئے تھے؟

جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ انتخابات 8 جون 2022 کو ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جون 2022میں ہونے والے انتخابات کالعدم قرار دیے تھے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم چیلنج ہوا تھا؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں فیصلہ چیلنج ہوا تھا جو لارجر بنچ کو ریفر کیا گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کیس زیرالتواء ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ کیا دونوں پارٹی انتخابات میں وہی عہدیداران منتخب ہوئے تھے؟

تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ہدایات اور ریکارڈ لے کر ہی آگاہ کر سکوں گا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں پارٹی الیکشن کرانے کا کہا تھا اس لئے دوبارہ کرائے۔

پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کیلئے نااہل کرنے کیلئے کیس چلایا، پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسز ایک ساتھ چلانے کی درخواست کی تھی۔

جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء تھا تو پشاور ہائی کورٹ نے کیسے سن لیا؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثر ہوچکا ہے، انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لیے پٹیشن بھی وہیں کیے گئے۔

من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے, چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیرسٹر گوہر سے سوال کیا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ ’میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آپ کو نشان نہیں دینا چاہتا ، لیکن اگر آپ کا بنتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو انتخابی نشان ملے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائی کورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ جس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سیکیورٹی نہیں مل رہی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کیلئے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا،من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے، جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے، ہر طرف گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں سیکیورٹی ملنے پر وہاں انتخابات کرائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے، کیا پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار کا نکتہ اٹھایا تھا؟

جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار سمیت دو ہائی کورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔

’دیکھنا چاہتے ہیں الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے ساتھ رویہ اب سخت ہوگیا، یا پہلے سے تھا‘

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پی ٹی آئی کی ایک درخواست خارج کر چکی ہے، عدالت میں مقدمہ زیرالتوا ہونے کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے درخواست خارج کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا، کیا لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق تو انٹراکورٹ اپیل واپس لے لی گئی تھی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے، کیا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ ہو، دوسری ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بینچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی شوکاز دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نگران حکومت کے دباؤ میں کام نہیں کر رہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ایک سال کی مہلت دی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے ساتھ رویہ اب سخت ہوگیا ہے یا پہلے سے تھا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو وقت مانگنے پر ایک سال دیا پھر کہا انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے پی ٹی آئی سرکاری پارٹی تھی اب شاید نہیں ہے، وکیل الیکشن کمشنر نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ضروری ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیاز اللہ نیازی کا تقرر کسی بھی انتخاب کے بغیر ہوا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کا پرانا جھگڑا چل رہا ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ بیرسٹر گوہر نے بطور چیف الیکشن کمشنر استعفی دیا جس پر نیاز اللہ نیازی کا تقرر ہوا، عمر ایوب کے سیکریٹری جنرل ہونے کا بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

’کیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟‘

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سیکریٹری جنرل کی تبدیلی سے آگاہ کرنا ضروری ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت آگاہ کرنا ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا باقی جماعتوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک ہی کیا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک تو نہیں ہو رہا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں رویہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن لڑنے کا بنیادی حق ہر شہری اور جماعت کا ہے، الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نجی سطح پر بھی آ جائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے یا صرف پی ٹی آئی میں ہوا ہے؟ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ریکارڈ دیکھ کر جواب دیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سارا جھگڑا 22 دسمبر کے انتخابات کا ہے، سب سے پہلے تو ہائی کورٹ کو ڈکلئیر کرنا تھا کہ انتخابات درست ہوئے، انتخابات درست ہوئے تو انتخابی نشان کا مسئلہ آئے گا۔

بنیادی چیز جمہوریت ہے جو ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی ہونی چاہیے، چیف جسٹس

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انتخابات درست قرار دینے کا ڈیکلیریشن نہیں دیا۔

قاضی فائز عیسی نے کہا کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے اس کا کیا بنا؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ حتمی فیصلہ نہیں آیا پی ٹی آئی کو شوکاز جاری کردیا گیا تھا، شوکاز پر کارروائی ابھی جاری ہے۔

ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنگل بینچ نے تو شواہد ریکارڈ کرنے کی ہدایت دی تھی ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دریافت کیا کہ تین سال میں فارن فنڈنگ کا فیصلہ نہیں ہوا؟۔

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ فارن فنڈنگ میں بھی بے پناہ بے ضابطگیاں تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دھرنا کیس میں الیکشن کمیشن نے قانون کو کاسمیٹک کہا تھا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ قانون پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا آپشن نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نو سال سے ممنوعہ فنڈنگ کیس ہی نہیں ہوسکا، حکام الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی چلتی رہی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں الیکشن کمیشن کو کارروائی کا حکم دیا تھا، مخدوم علی خان نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر مبنی قانون غیرمؤثر کر دیا ہے،

چیف جسٹس نے کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، لاہور ہائی کورٹ میں پانچ رکنی بنچ میں آج سماعت تھی علی ظفر نے التوا مانگا۔ْ

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ آج دلائل دینا چاہیں گے یا کل ؟ کیس جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک سماعت چلے گی، ہم ملک میں عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کل ساڑھے نو بجے دلائل شروع کروں گا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چلیں ہم سماعت کل دس بجے شروع کر لیں گے۔

اکبر ایس بابر خود پی ٹی آئی کےخلاف کھڑے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی کھڑا ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

بعد ازاں اکبر ایس بابر کے وکیل کے دلائل شروع ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے مختصر دلائل دوں گا، پشاور ہائی کورٹ میں نوٹس کیا گیا نہ مؤقف سنا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میڈیا سے معلوم ہوا تھا تو پہنچ جاتے، حامد خان بھی آج خود پیش ہوئے ہیں۔

وکیل احمد حسن نے بتایا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں، کاغذات نامزدگی لینے مرکزی سیکرٹیریٹ گئے لیکن کچھ نہیں دیا گیا، باہر الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی نے پریس ریلیز جاری کی تھی، ہر شہری کا حق ہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت جوائن کر سکتا ہے، اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں کبھی مستعفی ہوئے نہ کوئی اور جماعت جوائن کی، پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے کہا اکبر بابر پارٹی رکن نہیں ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے اکبر بابر سے بانی رکن ہونے کا ثبوت مانگ لیا، پی ٹی آئی سے اکبر بابر کو نکالنے کی دستاویزات بھی طلب کرلی گئی۔

وکیل اکبر بابر نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات کم نہیں کر سکتی۔

قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ تفصیلی فیصلہ کب آئے گا؟

چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ سے معلومات لینے کی ہدایت بھی کر دی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کسی کو زبردستی تو الیکشن نہیں لڑوا سکتی، کیا صرف اس بنیاد پر انتخابات کالعدم قرار دے دیں، پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملا تو کیا اکبر بابر کو نقصان نہیں ہوگا؟

وکیل احمد حسن کا کہنا تھا کہ اکبر بابر کا جرم قانون پر عملدرآمد کے لیے آواز اٹھانا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کراؤ، نشان تو بعد کی بات ہے، اکبر بابر اتنے عرصے سے پی ٹی آئی کو تنگ کیوں کر رہے ہیں؟۔

وکیل احمد حسن نے بتایا کہ پی ٹی آئی شاید اکبر بابر کو تنگ کر رہی ہے، ممنوعہ فنڈنگ پر پارٹی سے اختلاف ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اکبر ایس بابر خود پی ٹی آئی کےخلاف کھڑے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی کھڑا ہے؟۔

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی۔

ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ، چیف جسٹس

بعدازاں عدالت نے سماعت کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن نے اپیل دائر کی اور آگاہ کیا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔

حکم نامے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ عام انتخابات کی وجہ سے معاملہ فوری سماعت کا ہے، ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کل حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے آپ سے کل کچھ پوچھنا پڑ جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ مقدمے کی مزید سماعت کل صبح 10بجے ہو گی۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ تحریک انصاف کو بلے کاانتخابی نشان جاری کیا جائے۔

کیس کا پسِ منظر

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔

3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔

تاہم 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024