جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔
جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
کچھ دیر قبل عدالت عظمیٰ نے اپنا محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
اپنے حکم میں عدالت عظمیٰ نے میاں داود سمیت جسٹس مظاہر کے خلاف شکایت گزاروں کو کیس میں فریق بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اب 11 جنوری کو جسٹس مظاہر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن ہو گی۔
آج سماعت کے آغاز پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھی ہے، آرٹیکل 209 ججز کے تحفظ کے لیے ہے، عدالت آرٹیکل 209 اور سپریم جوڈیشل کونسل کے انکوائری رولز 2005 دیکھے، رولز کے تحت جج کے خلاف شکایت گزار کا کردار بہت محدود ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ججز کے خلاف کارروائی کے لیے صدر مملکت ریفرنس یا سپریم جوڈیشل کونسل خود کارروائی شروع کرتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بار کونسلز کیا جج کے خلاف شکایت کر سکتی ہیں؟ قاضی فائز عیسی کیس میں بار کونسلز نے درخواستیں کی تھیں، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا تھا کہ ججز کے خلاف شکایات بار کونسلز کر سکتی ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کے خلاف کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تو اس دن 21 درخواستیں خارج بھی کیں، جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف 21 درخواستیں خارج کیں جن میں سے 19 میں سے کسی شکایت گزار کو سنا نہیں گیا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے سامنے ہے، عدالت سمجھتی ہے کہ پہلے شکایت گزاروں کو نوٹسز ہونے چاہیے ورنہ کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب آپ کا موقف ہے کہ جسٹس مظاہر کے خلاف شکایتیں بدنیتی پر مبنی ہیں تو شکایت گزاروں کا موقف کیسے نا سنیں؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، اگر ان شکایت گزاروں کو فریق بنایا گیا تو سپریم جوڈیشل کونسل کی خارج کردہ تمام شکایتوں کے خلاف 184 تھری کی درخواستیں آئیں گی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کیا ججز کے خلاف نامعلوم درخواستیں بھی سنی جاتی ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ججز کے خلاف نامعلوم درخواستیں نہیں سنی جاتیں، جسٹس مظاہر کے خلاف بھی کسی نامعلوم کی شکایت نہیں ہے۔
دوران سماعت جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت سے حکم امتناع کی درخواست کی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست پر شکایت کننندہ کو فریق بنانے کے نکتے پر فیصلہ محفوظ کیا۔
عدالت نے کہا کہ محفوظ شدہ فیصلہ دس منٹ بعد سنایا جائے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی باڈی ہے تو ہم اسے کیا حکم دے سکتے ہیں؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ افتخار محمد چوہدری کیس میں عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر حکم امتناع دیا تھا، شوکت صدیقی کیس میں جسٹس عظمت سعید نے کہا تھا کہ فیصلہ نہیں لکھ ریے لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرے تو بتانا، عدالت کے سامنے تحریر شدہ فیصلہ رکھ رہا ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر ہم حکم امتناع دے دیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جاری رکھے تو پھر کیا ہو گا؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ابھی تو صرف فریقین کے معاملے کو دیکھنا ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔
واضح رہے کہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
15 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔
یاد رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ کیا تھا، انہوں نے جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنے خلاف اوپن کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔
20 نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔
اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
4 دسمبر کو جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔
6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔
یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔
اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔