اُبھرتے سورج کی سرزمین سے: پرانی کتابوں کے بازار اور شاہی محل کی سیر (دوسری قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
تہذیب یافتہ، دیانت دار، محنتی اور بہادر لوگوں کا خطہ جہاں حالات کیسے بھی ہوں، وہ کسی مصیبت یا آفت سے نہیں گھبراتے۔ اس کی تازہ ترین مثال یکم جنوری 2024ء کو جاپان میں آنے والا زلزلہ تھا جہاں پورے ملک کے اخلاص اور بہادری کا میں عینی شاہد بنا۔
نئے سال کے پہلے ہی دن جاپانیوں کو دو ناگہانی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ جاپان کے پریفیکچر ’ایشی کاوا‘ میں شدید زلزلہ اور سونامی کی وارننگ جبکہ اس پر بالائے ستم ٹوکیو کے ہنیدا ایئرپورٹ پر دو طیاروں کا تصادم، ان دونوں حادثات میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن سے اٹھنے والی اداسی کی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ ملک کچھ لمحات پہلے نئے سال کی آمد اور اس کے استقبال کی خوشی میں رقص کناں تھا۔ پورے ملک میں لوگ چھٹیاں منا رہے تھے اور گھروں میں عید کا سا سماں تھا۔ بڑی تعداد میں لوگ مندروں اور درگاہوں کا رخ کررہے تھے تاکہ نئے سال کے لیے خیر اور خوشیوں کی دعائیں مانگیں۔ دفاتر اور بازار بند تھے۔ دوست احباب آپس میں ملاقاتیں کررہے تھے، نت نئے پکوان اور ان کی مہک سے پورا ماحول معطر تھا۔ ایسے میں جاپان کا بیشتر علاقہ زلزلے سے لرز اٹھا اور اس کے بعد ایک اداسی کی کیفیت برپا ہوگئی۔ جاپانی سرکار کے سوٹ بوٹ والے وزیراعظم اور دیگر وزرا نے اپنے کپڑوں پر نیلے رنگ کا کوٹ نما لباس پہن لیا جس کا مطلب تھا پوری قیادت اس وقت ہنگامی حالات کے لیے تیار ہے۔
جاپان میں زلزلے کا مرکز اور مجموعی فضا
جاپان چار بڑے اور ہزاروں چھوٹےجزائر پر مشتمل ملک ہے۔ ان چار بڑے جزائربشمول دیگر چھوٹےجزائر کو آٹھ ریجن میں تقسیم کرکے 47 پریفیکچرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستانی پریفیکچرکو صوبے کے متبادل سمجھ سکتے ہیں۔ ان پریفیکچرز میں مزید ذیلی تقسیم کے ذریعے علاقوں کو شہروں اور دیہات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
نئے سال پر آنے والا زلزلہ چار بڑے جزائر میں سے ایک ہونشو جزیرے کے ریجن ’چوہبو‘ کے پریفیکچر ’ایشی کاوا‘ میں آیا۔ عددی اعتبار سے یہ 17 واں پریفیکچر ہے جو جاپان کی مغربی ساحلی پٹی پر واقع ہے جس کے سامنے اگر ہم سمندر کو عبور کریں تو دوسری طرف روس، چین، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ متعلقہ ممالک بھی سونامی کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر تیار تھے۔
جاپان میں آنے والے اس زلزلے سے پورا ملک لرز اٹھا۔ ایشی کاوا پریفیکچر میں آنے والے اس زلزلے نے قریبی پریفیکچرز اور ان کے شہروں کو بری طرح ہلادیا جبکہ اس کی شدت ٹوکیو تک محسوس کی گئی جوکہ زلزلے کے مرکز سے سیکڑوں میل دور تھا۔ جاپان کا دوسرا بڑا شہر ’اوساکا‘ اس زلزلے کے مرکز سے قریب تھا جہاں میں کچھ دن پہلے تک مقیم تھا۔ وہاں رہنے والے میرے جاپانی دوستوں نے بتایا کہ اس زلزلے کا دورانیہ خاصا طویل تھا اور یہ چند لمحات صدیوں پر بھاری محسوس ہوئے کہ جب پورا شہر ایک گیند کی مانند جھول رہا تھا۔
زلزلے کا الرٹ اور مہربان جاپانی
اس زلزلے کی آمد کا وقت سہ پہر کا تھا۔ اس وقت میں جاپان میں اپنا کام ختم کرکے ٹرین کے ذریعے گھر واپس جارہا تھا۔ جاپان میں زلزلے کا الرٹ ہر جاپانی کے فون پر پیغام کی صورت میں آتا ہے۔ اس پیغام کو ملنے اور زلزلہ آنے میں صرف چند سیکنڈز کا وقفہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جیسے ہی یہ پیغام آیا تو اوساکا میں موجود ایک جاپانی دوست نے فوری مجھے پیغام بھیجا۔ اس دوران انہیں زلزلے کی شدت کا سامنا بھی تھا کیونکہ زلزلہ مسلسل آرہا تھا اور ایسی صورتحال میں بھی انہیں میں یاد تھا، یہ بلاشبہ جاپانیوں کی فرض شناسی اور مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال ہے۔
میں نے اپنی اس مہربان جاپانی دوست سے پوچھا کہ آخر کیوں آپ نے اس وقت خود کی پروا کیے بغیر مجھے فوری مطلع کیا تو ان کا کہنا تھا ’آپ جاپان میں مہمان ہیں، آپ نے ہماری طرح زلزلوں سے نمٹنے کی تربیت حاصل نہیں کی اور نہ ہی آپ کے پاس سرکاری سطح پر الرٹ وصول کرنے کی کوئی سہولت ہے تو ایسے میں یہ میرا فرض تھا کہ میں آپ کی مدد کو آتی‘۔ یہ بات مجھے ساری زندگی یاد رہے گی۔
سونامی کی وارننگ کے تاریک سائے میں گزرے دن
زلزلے کے ساتھ ساتھ ٹوکیو کے ہنیدا ایئرپورٹ پر دو طیاروں کے تصادم نے ملک کی فضا کو مزید افسردہ کردیا۔ ان دونوں واقعات کے رونما ہونے کے بعد اگلے چند دن جاپانی حکومت کی طرف سے جاری کردہ سونامی وارننگ کے تاریک سائے تلے گزرے جوکہ آخر کار ٹل گئی۔ اگر آپ کو 2011ء میں آنے والا سونامی یاد ہے تو آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ سونامی کی وارننگ اہلِ جاپان کے لیے کس قدر خوفناک حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود جاپانی ایک بہادر اور نڈر قوم ہے۔ حالات کس قدر خراب ہوجائیں وہ ڈٹ کر ان حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس بار میں نے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
نہ کوئی کمیٹی بنی اور نہ ہی کوئی کمیشن اور نہ ہی کسی وزیر کا کوئی سرکاری فوٹوسیشن ہوا، بس جھٹ پٹ راتوں رات متاثرہ علاقے کو امداد پہنچائی گئی جن میں سب سے ضروری چیز پینے کا پانی تھا اور متاثرین کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا گیا۔ اسے کہتے ہیں قوم اور قوم کا دکھ محسوس کرنا۔ کاش ایسے مناظر ہمیں بھی اپنے ملک میں کبھی دیکھنے کو ملیں۔
نئے سال کی آمد اور منچلے
اس بار میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ نئے سال کی آمد پر ٹوکیو میں موجود ’ٹوکیو ٹاور‘ ضرور جاؤں گا اور وہاں سے فیس بک لائیو کروں گا۔ ٹوکیو میں یہ میرا سب سے پسندیدہ سیاحتی مقام ہے۔ یہاں جانا کافی مشکل فیصلہ تھا کیونکہ یہ سیاحتی مقام میری رہائش گاہ سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ بہرحال نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو ہی جاتی ہے۔ جاپان میں میرے پاکستانی میزبان جناب خاور کھوکھرصاحب نے مجھے معروف پاکستانی ریسٹورنٹ پہنچایا جہاں ہمارے دوست راشد صمد خان نے ہمیں ظہرانہ دینا تھا۔ اس موقع پر جاپان میں پاکستانی کھانوں کی معروف بزنس چین ’صدیق ریسٹورنٹ‘ کے مالک اور محب الوطن پاکستانی جناب میاں رمضان بھی اس محفل میں شریک ہوگئے۔
گفتگو کے دوران وہ کہنے لگے کہ ’آپ جانتے ہوں گے کہ ٹوکیو ٹاور کے اندر صرف چند منتخب ریسٹورنٹس ہی ہیں جن میں سے ایک ہمارا ریسٹورنٹ ہے اس لیے جب بھی کوئی سیاح یا جاپانی شہری ٹوکیو ٹاور جائے گا تو اسے اس ریسٹورنٹ کے ذریعے پاکستان کے بارے میں بھی شناسائی ملے گی تو ابھی ہم وہاں چلتے ہیں‘۔ تو لیجیے جناب سال کے آخری دن ہم ٹوکیو ٹاور کے اندر موجود تھے۔ بہرحال وہاں سے ہم میاں رمضان کے ایک اور ریسٹورنٹ گئے جہاں چائے اور سموسوں سے ہماری تواضع کی گئی۔ بڑے دنوں بعد اتنی اصلی کراچی والی کڑک چائے پینے کو ملی۔ یقین جانیے اس چائے کی قدر وہی جان سکتا ہے جسے ایک مہینے سے دودھ پتی پینے کو نہ ملی ہو بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ دیکھنے کو بھی نہ ملی ہو۔
جاپان میں ہی پاکستانی ریسٹورنٹ کی ایک اور مشہور چین ’نواب ریسٹورنٹ ’کے شاکر بھائی سے ہماری پہلے ہی دوستی ہوگئی تھی اس لیے انہوں نے ہمیں نئے سال کی پارٹی میں مدعو کیا جہاں وہ اپنے دوستوں اور ملازمین کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں اور خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں پاکستان سے محبت کرنے والی کئی جاپانی شخصیات بھی ملیں جن سے ہم نے پاکستان کے کھانوں، لباس، زبان، ثقافت کے ساتھ ساتھ جاپانی ادب اور ادیبوں کی بہت ساری باتیں کیں۔ یہ محفل بہت پُرلطف اور ہنگامہ خیز رہی۔
ٹوکیو میں ٹرین کی بندش اور نئے سال کی رات
رات گئے پارٹی سے فارغ ہوکر میں دوبارہ ٹوکیو ٹاور پہنچا۔ ٹرین سے اتر کر جب میں اس کی جانب جارہا تھا تو سیکڑوں سیاح بھی میرے ساتھ ساتھ رواں دواں تھے مگر ہم سب جلدی میں بھی تھے کیونکہ ہمیں 12 بجے والی آخری ٹرین پکڑنی تھی تاکہ ہم سب اپنے اپنے گھروں یا ہوٹلز میں واپس پہنچ سکیں۔ جاپانی سرکار اس موقع پر پہلے ساری رات ٹرین چلایا کرتی تھی مگر اب جیسے کراچی میں سی ویو کے راستے نئے سال کی آمد پر بند کردیے جاتے ہیں اسی طرح ٹوکیو میں ٹرینیں بھی بند کردی جاتی ہیں۔
ٹرین بندش کے پیچھے بھی یہی مقصد کار فرما ہے کہ منچلے کہیں زیادہ شوخ و چنچل نہ ہوجائیں مگر وہ منچلا ہی کیا جو راستے یا ٹرین بند ہونے کی پروا کرے۔ پاکستان ہو یا جاپان، منچلوں کا جذبہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ جاپان میں روپونگی، گنزا، شیبیا کراسنگ، ٹوکیو ٹاور، اسکائی ٹری سمیت متعدد سیاحتی مقامات پر نیو ایئر پر منچلوں اور سیاحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس نئے سال کی خوشی میں پاکستانی کمیونٹی ایک دوسرے سے ملنے کا پروگرام بناتی ہے، میں نے ایسی کئی دیگر محفلوں میں شرکت کی اور خوب ہلہ گلہ کیا۔ یوں جانیے ہزاروں میل دور وطن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔
جاپان میں گزرتے ہوئے دنوں کے اہداف
آپ جب بھی جاپان میں سیاحت کی غرض سے آئیں گے تو بڑے ریجن میں آپ کو اپنی سیاحت کی منازل تقسیم کرنا پڑیں گی۔ ایک ہے کانتو ریجن اور دوسرا ہے کانسائی ریجن۔ پہلے ریجن کا مرکزی شہر ٹوکیو ہے جس کے گردونواح میں اتنا کچھ ہے کہ آپ پورا مہینہ بھی سیاحت کرتے رہیں تو سیاحتی مقامات ختم نہ ہوں۔ اس مرتبہ میرے سامنے چار سیاحتی وعلمی اہداف ہیں جن میں پہلا یہ ہے کہ میں جاپان کے مختلف سیاحتی مقامات کی تصویر کشی کروں، ویڈیوز بناؤں، وی لاگز تیار کروں اور اسے قلم بند بھی کروں۔ اس غرض سے میں مختلف سیاحتی مقامات کے بارے میں جانتا پہچانتا آگے بڑھ رہا ہوں۔ آپ قارئین بھی اس سفر میں میرے ساتھ ہیں۔ اس سفر میں جاپانی جامعات، کتب خانے، میوزیمز، ریسٹورنٹس، بازار اورمشہور درگاہیں، مندر، گزرگاہیں اور ٹاورز وغیرہ شامل ہیں۔
دوسرا ہدف جاپانی دوستوں سے ملاقات، پاکستان اور پاکستانی زبانوں پر کام کرنے والے مشاہیر، اساتذہ، طلبہ، محققین، مترجمین اور مورخین سے ملنا مقصود ہے۔ ان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے جن کا احوال بھی آگے چل کر تفصیل سے گوش گزاروں گا۔
تیسرا ہدف جاپان کی شہری اور دیہی زندگی کے فرق کو سمجھنا ہے۔ اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں اور سب سے عملی کوشش یہ ہے کہ اس بار میں شہر میں کہیں رہنے کی بجائے ایک دیہی علاقے میں رہائش پذیر ہوں۔ چوتھا اور آخری ہدف یہ ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے ناول ’گینجی مونوگتاری‘ کے اردو ترجمے کو جاپانی ادبی وعلمی حلقوں میں متعارف کروانا ہے۔ یہ ناول ایک ہزار سال سے قبل لکھا گیا تھا۔ آپ گوگل سے یہ پوچھیں کہ ’دنیا کا پہلا ناول کون سا ہے؟ باقی ساری تفصیل وہ خود آپ کو بتادے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کی 32 زبانوں میں ترجمہ ہونے والا جاپان کا یہ مقبول ترین ناول اب اردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔
اس ناول کو جاپانی خاتون ناول نگار ’موراساکی شیکیبو‘ نے لکھا جبکہ اردو میں اس کے مترجم باقری نقوی، شریک مترجم اور مدیر ومدن راقم ہیں۔ پاکستان جاپان لٹریچر فورم کی طرف سے اس ناول کے منصوبے کو پانچ سال کے عرصے میں مکمل کیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس اردو ترجمے کے لیے پیغامات درج کروائے اور ساتھ ساتھ جاپان میں اردو تدریس سے وابستہ اساتذہ نے بھی اپنے پیغامات دیے۔ یہ ناول دونوں ممالک کے درمیان ادبی دوستی کا شاندار مظہر ہے۔
ٹوکیو میں واقع شاہی محل
جاپان کے شہر ٹوکیو میں جب سیاحت شروع کی جائے تو وہ ختم ہونے کو نہیں آتی لیکن مختصر طور پر بتاتا ہوں کہ میں ان دنوں کن خوبصورت اور تخلیقی تجربات سے گزر رہا ہوں۔ جاپان میں آتے ہی مجھے ٹوکیو میں واقع ’شہنشاہ کے محل‘ کے مقام کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ یہ سال میں ایک دو بار کھلتا ہے جس میں محل کے اردگرد کے مخصوص حصے سے گزرنے کی اجازت ملتی ہے۔ عام حالات میں تو آپ اس کے درودیوار کے قریب بھی نہیں آسکتے۔
جاپانی اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے اس طرح کے مواقع کو اہم جانتے ہیں اور اب غیر جاپانی سیاحوں کو بھی اس سیر کو کرنے کی اجازت ہے تو ہم نے اپنے جاپانی دوستوں کے ساتھ اس کی سیر کی۔ دوران تلاشی سیکیورٹی پر مامور حفاظتی دستے کی خاتون اہلکار نے ہم سے اصرار کیا کہ پانی کی بوتل میں پانی ہی ہے یا کچھ اور؟ تو جواب کی مزید تصدیق کے لیے کہنے لگیں ’پانی پی کر دکھائیں۔‘ میں نے پانی پی کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ کافی دیر سے ہم پیدل چل رہے تھے اور پانی پینے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ آپ نے ہماری رمز سمجھی اس کے لیے دل کی گہرائی سے آپ کا شکریہ۔
قارئین یہ محل ٹوکیو شہر کے مرکز میں واقع ہے اور عام دنوں میں اسے باہر سے دیکھا جاسکتا ہے یا پھر اس سے متصل پارک میں آپ سیرو تفریح کے لیے جاسکتے ہیں۔
جاپان کا اردو بازار
یہاں جاپان کے اردو بازار سے مراد ایک ایسا بازار ہے جہاں جاپانی زبان کی پرانی کتابیں، مخطوطے اور بیش قیمت تصاویر، پینٹنگز وغیرہ ملتی ہیں۔ میں نے ایک دن وہاں جانے کی ٹھانی۔ یہ ’کاندا‘ کا علاقہ ہے جو ٹوکیو میں کافی مشہور ہے۔ میں جب اسٹیشن سے اتر کر بازار کی طرف چلنا شروع ہوا تو میرے دائیں بائیں میوزیکل انسٹرومنٹس، الیکٹرونکس کی دکانیں تھیں۔
کافی چلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ شاید ہم راستہ بھٹک چکے ہیں لہٰذا سوچا کہ کسی سے مدد لی جائے تو ایسے میں ہمیں ایک انڈین ریسٹورنٹ دکھائی دیا۔ میں اندر گیا اور استقبالیے پر موجود بنگالی بھائی نے نہ صرف ہمیں ریسٹورنٹ سے باہر آکر خالص پاکستانی انڈین انداز میں راستہ سمجھایا بلکہ دعوت دی کہ ہمارے پاس حلال کھانا ہوتا ہے جو جاپان کے اردو بازار سے واپسی پر ہم نے کھایا۔ وہ واقعی حلال تھا اور لذیذ بھی۔
جاپان کے اس اردو بازار کو آپ جاپانی بازار بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں درجنوں دکانیں ہیں جہاں پرانی کتابیں، رسالے اور مخطوطات کم نرخوں پر دستیاب ہیں۔ 80 فیصد کتابیں جاپانی زبان میں جبکہ دس فیصد انگریزی زبان میں ہیں۔ باقی چینی، کورین اور مختلف زبانوں میں کتب تھیں۔ کئی نایاب ثقافتی تصاویر بھی اور پوسٹرز بھی فروخت کے لیے دستیاب تھے۔ وہاں جاپانی ادب کے پرانے ایڈیشنز کی کتابیں اور مخطوطوں کی ایک دکان تھی جہاں ہم نے ’گینجی مونوگتاری‘کے ایک تاریخی اور نایاب ایڈیشن کی قیمت پوچھی تو وہ پاکستانی روپے میں تقریباً ایک لاکھ روپے تھے۔ یہاں رکھی ہوئی کتب کئی کئی لاکھ کی تھیں مگر دیگر عام دکانوں پر معاملہ اس سے مختلف اور انتہائی سستا تھا۔
ساتھ ہی میں نے اپنے جاپانی اور پاکستانی دوستوں کے ہمراہ ایک چینی مسلم ریسٹورنٹ پر ’حلال رامین‘کھایا جو عمومی طور پر جاپان کی مشہور ترین ڈش ہے مگر اس میں جو گوشت شامل ہوتا ہے وہ حلال نہیں ہوتا لیکن اس چینی ریسٹورنٹ نے یہ معاملہ بھی بخوبی حل کردیا۔ سستے داموں پرانی کتابیں ملنا اور حلال رامین کھانا ایک ایسی خوشی تھی جو ہم پر کئی دن طاری رہے گی۔
حرفِ آخر
دوستوں جاپان میں گزرتے دنوں کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے جس میں ہم آپ کو بہت کچھ بتائیں گے۔ جاپان دنیا کے چند ایسے ممالک میں سے ایک ہے جو بیک وقت روایتی اور جدید ملک ہے۔ دونوں تہذیبوں کا سنگم اگر کہیں ملتا ہے تو وہ صرف جاپان ہے۔ ابھرتے سورج کی یہ سرزمین جہاں حیرت زدہ ہونے کو کافی کچھ ہے۔ تھوڑا انتظار فرمائیے، اگلی اقساط میں آپ کو ان مزید نت نئی حیرتوں سے متعارف کرواؤں گا جن سے اس ملک کے حُسن کا مزید حُسنِ بیاں ہوگا۔ بقول احمد ندیم قاسمی،
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔