’الیکشن سر پر ہیں، ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا ہے‘، نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی
سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن سر پر ہیں، ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت نے معاملے کی سماعت کی جہاں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عزیر بھنڈاری کہاں ہیں؟ چیف جسٹس کے استفسار پر پر عزیر بھنڈاری روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے 3 عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھجوایا ہے، گزشتہ سماعت پر ہم نے ریما عمر، عزیز بھنڈاری اور فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔
دریں اثنا سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا روسٹرم پر آگئے، جنہوں نے گزشتہ سماعت پر تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی۔
خرم رضا نے استفسار کیا کہ یہ اپیلیں کس قانون کے تحت چل رہی ہیں؟ کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کی گئیں؟ اِس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں۔
وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پرسن رہی ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 99 ہائی کورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟
خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کے خلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 62 ون ایف ٹریبونل کوبھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا صرف تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے؟
خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلئیریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹریبونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لا درج ہے، سپریم کورٹ نہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہو گا ہمیں الیکشن ٹریبونل کے اختیارات کی طرف نہ لے کر جائیں، آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔
قتل، اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ اہل ہوجاتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قتل اور اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ الیکشن کا اہل ہو جاتا ہے۔
اس دوران وکیل خرم رضا نے اسلامی اصولوں کا حوالہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی سپورٹ میں کوئی دلیل بھی دیں، توبہ اور راہ راست، صراط المستقیم پر واپس آنے کا اصول اسلام میں ہے، شروع میں تو چند ہی لوگ مسلمان تھے، اس طرح تو خلفا راشدین پھر واپس آہی نہیں سکتے تھے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چلیں موضوع بدل دیتے ہیں، عدالتی ڈیکلیریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت 5 سال ہوگی۔
وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا 62 ون ایف مدت پر خاموش ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں، درست یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں، ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا، منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے، کافر کو پتا نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کررہا ہوتاہے، پارلیمنٹ نے ایک قانون کتاب بنا کر ہمیں دی، ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے نہیں یہ سب ختم، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ ڈالی؟
وکیل خرم رضا نے آئینی ترامیم کا حوالہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رہنے دیں، ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں بیٹھے 5 ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟ جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے، آپ اراکین اسمبلی کو جتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ ہمارے نمائندے ہیں، آپ ڈکٹیٹرز کی دانش اراکین اسمبلی کی دانش پر فوقیت نہیں دے سکتے۔
غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ صادق اور امین کی کیا تعریف ہوگی؟ کوئی قتل کرکے آجائے؟ وکیل عثمان کریم نے کہا کہ غیرمسلم پر بھی صادق اور امین لگایا گیا ہے، یہاں امین کا مطلب اسلام والا نہیں لیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین تو انگلش میں تھا، کیا آئین سازوں کو صادق اور امین کی انگریزی معلوم نہیں تھی؟ جنرل ضیا یا ان کے وزیر کو امین کا مطلب نہیں معلوم تھا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب امین کا مطلب اسلامک ہی ہوگا، عثمان کریم نے کہا کہ اگر اسلامک مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ غیرمسلم پر نہیں لگے گا، اِس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں؟ اس پر عثمان کریم نے کہا کہ حتمی طور پو تعین اللہ ہی کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ تحریر کرنے والا جج نے فیصل واڈا کیس کا فیصلہ بھی دیا، کیا دونوں فیصلوں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا یے ؟ وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے وہ اپنے نکات بتا دیں، 3 وکلا نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی، عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں؟
وکیل اصغر سبزواری نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی ’جج میڈ لا‘ ہے، جہانگیز ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہیے جہاں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ جب قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی؟
آمروں اور سیاست دانوں کو ایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اور سیاست دانوں کو ایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، آمر آئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے، منتخب ہوکر نہیں آتا، سیاست دانوں کو ایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک آرٹیکل کہتا ہے کون کون اہل ہے دوسرا کہتا ہے کون نااہل، دونوں باتوں میں فرق کیا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا۔
وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟ عثمان کریم نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ 5 رکنی بینچ کا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل عثمان کریم کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ اچھی تیاری کر کے آئے ہیں، اور بھی معاونت کریں، الیکشن سر پر ہیں، ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔
عثمان کریم نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ریٹرننگ افسر عدالت نہیں جو ڈیکلریشن دے سکے، سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت کے تعین کی درست تشریح نہیں کی، سپریم کورٹ اپنی غلطی کی تصحیح کر سکتی ہے۔
دریں اثنا عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ اٹھارہویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا، پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے مکینزم کی بات نہیں کر رہا، 18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں، کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا، شاید اس لیے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو، ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، 62 ونایف کے تحت تاحیات نااہلی کی سزائیں دی گئی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاحیات نااہلی کی سزا اٹھارویں ترمیم سے قبل دی گئی یا بعد میں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 2007 میں تاحیات نااہلی کی سزا دی گئی، آٹھارویں ترمیم سے قبل سزائیں دی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن 62 ون ایف میں نہیں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 62 ون ایف کی سزا کا تعین عدالتوں نے کیا ہے، پارلیمنٹ نے کبھی آرٹیکل 62 اور 63 کی لینگویج تبدیل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
’تاحیات نااہلی فیصلے کی بنیاد کسی منطق پر ہی ہونی چاہیے‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک مرتبہ حلف کی لینگویج تبدیل ہوئی تو پورا ملک بند کر دیا گیا، شاید اس لیے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو، ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے کوختم کئے بغیر راستہ نکالا جاسکتا ہے، پرسوں اس عدالت میں کہا گیا 62ون ایف 63 سے ملا کر پڑھا جائے، یہ نکتہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تفصیل سے اٹینڈ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے اصل نکتے پر آجائیں ایسا نہ ہو آج لاہور نہ جا سکیں، عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں 20 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی بنیاد کسی منطق پر ہی ہونی چاہیے، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ 18ویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا، پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔
چیف جسٹس نے عزیر بھنڈاری سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے میکنزم کی بات نہیں کر رہا، 18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں، کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔
عذیر بھنڈاری نے کہا کہ کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر کے پاس جاتے ہیں جو نااہلی کا ڈیکلریشن نہیں دے سکتا، الیکشن ٹربیونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر نااہلی کا ڈیکلریشن دے سکتا ہے، ڈیکلریشن کون دے سکتا ہے یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں لکھا ہوا۔
’کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکرے کے سوا کچھ نہیں‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی عدالت کسی کے سچے اور راست گو ہونے کا ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ ایمانداری ، امین اور فضول خرچ نہ ہونے کا تعین عدالتیں کیسے کر سکتی ہیں؟ تاحیات نااہلی کیس میں تو سب کچھ سپریم کورٹ نے ہی کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے سپریم کورٹ ایسا ڈیکلریشن دے سکتا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک فوجداری یا سول کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے۔
عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل دس اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، ریٹرننگ افسر ڈیکلریشن نہیں دے سکتا، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں ہے، الیکشن ٹربیونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر ڈیکلریشن دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے ہی دلائل کی نفی کر رہے ہیں، ایک جج کہے گا نااہلی ہوتی ہے دوسرا جج کہے گا نااہلی نہیں ہوتی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈیکلیریشن کہاں سے آئے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جعل سازی پر ڈیکلریشن کون دے گا، کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکرے کے سوا کچھ نہیں۔
ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہوگی یا پانچ سال، چیف جسٹس کا عدالتی معاون سے مکالمہ
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں عدالتی معاون ہوں، ’کراس‘ سوال نہ کریں، عدالتی معاون عزیر بھنڈاری کے جواب پر ججز مسکراتے رہے، انہوں نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں اپنے سوالات واپس لے لیتا ہوں، تسلیم شدہ حقائق پر سپریم کورٹ بھی ڈیکلریشن دے سکتی ہے، سول کورٹ بھی ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے چیزوں کو آسان بنانا ہے مشکل بنانا نہیں، ہمیں آر او کے لیے آسانی لانی ہے، مشکل نہیں لانی، ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہوگی یا پانچ سال، آپ نے تو ریٹرننگ افسر کو کورٹ آف لا بنا دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص کوالیفائی کر کے رکن بن گیا اور بعد میں وہ خراب ہو گیا تو کیسے نکالیں گے؟ نااہل کرنے والے آرٹیکل 63 میں تو 62 ون ایف کا زکر نہیں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسی صورت میں تو وارنٹو کی رٹ لائی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بھنڈاری صاحب میں بات نہیں سمجھ پا رہا، جس پر انہوں نے کہا کہ میں پھر معذرت کر لیتا ہوں، ڈیکلیریشن کہاں سے آنا ہے اگر یہ سوال ہے ہی نہیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔
جسٹس یحیحی آفریدی نے کہا کہ آپ اپنے دلائل اپنی ترتیب سے جاری رکھیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں مگر ہم نے کیس ختم بھی کرنا ہے، ہم نے اپنا آرڈر لکھنا بھی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص کوالیفائی کر کے رکن بن گیا اور بعد میں وہ خراب ہو گیا تو کیسے نکالیں گے؟ نااہل کرنے والے آرٹیکل 63 میں تو 62 ون ایف کا زکر نہیں۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسی صورت میں تو وارنٹو کی رٹ لائی جائے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ بھنڈاری صاحب میں بات نہیں سمجھ پا رہا، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں پھر معذرت کر لیتا ہوں، ڈیکلیریشن کہاں سے آنا ہے اگر یہ سوال ہے ہی نہیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ اپنے دلائل اپنی ترتیب سے جاری رکھیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں مگر ہم نے کیس ختم بھی کرنا ہے، ہم نے اپنا آرڈر لکھنا بھی ہے۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ڈیکلیریشن کووارنٹو میں بھی دیا جا سکتا ہے، خواجہ آصف کیس میں ایسا کووارنٹو دیا گیا، ہائیکورٹ خود کووارنٹو میں خود بھی ڈیکلیریشن دے سکتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ہائیکورٹ گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ آگئی ہے اگلا پوائنٹ بتائیں، جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا؟ اس نکتے کی طرف کسی کا دیہان نہیں گیا، پارلیمنٹ نے یہ ترامیم مرضی سے نہیں کیں، ان پر تھوپی گئی ہیں۔
عذیربھنڈاری نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کسی نے تھوپی نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پورے پاکستان کو یرغمال بنانے والے دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں یہ کوئی نہیں بتا رہا، کوئی وکیل بھی ڈکٹیٹر کے خلاف بات نہیں کرتا، ڈکٹیٹر کہتا ہے یہ ترامیم کرو نہیں تو میں 25سال بیٹھا رہوں گا، آمر کو ہٹانے کیلئے پارلیمان اس کی بات مان لیتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہوا میں باتیں کر رہے ہیں ، ایک سوال کا جواب دیں، ایک ڈیکلیریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے؟ کیاکوئی جا کر کہہ سکتا ہے اب توبہ کر لی ڈیکلیئر کریں میں بہت اچھا مسلمان ہوں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہو؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں نے فیصل واوڈا کیس میں ایسا دیکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو سب سے زیادہ ڈسکشن دینا بہت خطرناک ہوتا ہے، میں توقع رکھتا تھا کہ آپ آئینی معاونت کریں گے، یہ نہیں ہو سکتا فیصل واوڈا ندامت دکھائے تو معاملہ عدالتی موڈ پر چلا جائے، عدالت کا موڈ ہو تو تاحیات نااہلی کرے موڈہو تو چھوڑ دے ایسا نہیں ہوتا، ہم ہوا میں باتیں کر رہے ہیں ، ایک سوال کا جواب دیں۔
آپ آج میرے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ کا مکالمہ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ڈیکلیریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے؟ کیاکوئی جا کر کہہ سکتا ہے اب توبہ کر لی ڈیکلیئر کریں میں بہت اچھا مسلمان ہوں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہو؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں نے فیصل واوڈا کیس میں ایسا دیکھا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کو سب سے زیادہ ڈسکشن دینا بہت خطرناک ہوتا ہے، میں توقع رکھتا تھا کہ آپ آئینی معاونت کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا فیصل واوڈا ندامت دکھائے تو معاملہ عدالتی موڈ پر چلا جائے، عدالت کا موڈ ہو تو تاحیات نااہلی کرے موڈہو تو چھوڑ دے ایسا نہیں ہوتا، کسی وکیل نے ڈکٹیٹر کے خلاف کبھی بات نہیں کی۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں نے جتنا ڈکٹیٹر پر تنقید کی اتنی 18ویں ترمیم پر کی، چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ بیچاروں پر تو تنقید آسان ہے، عزیز بھنڈاری نے کہا کہ میں بندوق والوں سے نہیں لڑ سکتا جنہیں ووٹ دیا ان سے ہی پوچھ سکتا ہوں، میں کہہ رہا ہوں ڈیکلیریشن سوٹ فائل کرنے سے آسکتا ہے، میری یہ رائے ہے اسے آپ نے ماننا یا نہ ماننا ہے۔
عزیر بھنڈاری نے جسٹس منصور علی شاہ کے پرانے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ آج میرے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آٸین میں یہ جو چیزیں آٸیں، کس راستے سے آٸی، لوگوں اور پارلیمنٹ نے سوچ سمجھ کر قانون سازی نہیں کی، کیا ان پر تھونپی گٸی ہیں یہ چیزیں۔
انہوں نے کہا کہ 62ون ایف کی ٹیونگ کی گٸی، جبراً ایک شخص کی مرضی پورے پاکستان پر حاوی ہو گٸی، پاکستان کو یرغمال بنانے والوں نے معافی مانگی کسی سے؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ چیزیں مارشل لا اور ڈکٹیٹرز کے دور کے دوران آٸیں لیکن وکیل کے منہ سے ڈکٹیٹرشپ کے خلاف کوٸی بات نہیں نکلتی
عذیر بھنڈاری نے کہا کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہے میں ان سے تو نہیں لڑ سکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کبھی بھی فیصل واوڈا کیس کی روشنی میں کسی کو بھی صادق اور امین قرار دے سکتی ہے؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا اس جج کے لیے بھی کوئی معیار ہے جو کسی کو صادق و امین کا ڈکلیریشن دیتا ہے، کیا خود جج اس معیار پر پورا اترتا ہے جو کسی اور کو امین قرار دے۔
اس کے بعد سماعت میں نماز عصر کا وقفہ کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا، عدالتی معاون فیصل صدیقی
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالتی معاون فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں انہی نکات پر فوکس کروں گا جو عدالت کے سامنے ہیں اور نااہلی کی مدت پر بات کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس صرف مدت کی بات کرتا ہے اور تاحیات نااہلی والے سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی حمایت کر دی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے پیچھے نیت دیکھنا ہوگی، ترمیم سے نااہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی گئی اور صوابدید عدالت پر چھوڑی گئی ہے کہ پانچ سال کے اندر کتنی مدت کی نااہلی کرنی ہے۔
عدالتی معاون نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا مقصد سمیع اللہ بلوچ کیس کو اووررائٹ کرنا تھا، تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم بے سود ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کا اثر کسی سادہ قانون سازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا، تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لیے بغیر پانچ سال نااہلی کا قانون غیرآئینی ہوگا۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی عدالتی ڈیکلریشن کی بنیاد پر دی تھی اور لازمی نہیں کہ عدالتی ڈیکلیریشن ہمیشہ کے لیے ہو، ڈیکلیریشن ختم ہوتے ہی نااہلی کی میعاد بھی ختم ہوسکتی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسجر کا تعین ہونا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟۔
عدالتی معاون نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلے چلے گا یا الیکشن ایکٹ، پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم پانچ سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق 18ویں ترمیم سے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ نے ایسا فیصلہ دیا جس پر آئینی خلا تھا، سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پر ہو سکے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں خلا کہ صورت میں یہی کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پُر کرنے کے لیے عدالتی تشریح ہی ہو گی؟ آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہو سکتا ہے نا کہ عدالتی تشریح، آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے، وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے؟ پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لیں۔
جسٹس منمصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلیریشن کی مدت 5سال تک رکھنا الگ بات ہے، قانونی ترمیم سے شاید وہ اس سے تھوڑا آگے چلے گئے، نااہلی کی مدت کو پانچ سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟۔
اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، یا الیکشن ایکٹ کی ترمیم باقی رہے گی یا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں دی گئی چیز کو سادہ قانون سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلہ نہ بھی ہوتا پارلیمنٹ سادہ قانون سے یہ نہیں کر سکتی تھی۔
عدالتی معاون نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم ہونا چاہیے، اس ملک میں عدالتی قتل سے بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ کس نے توبہ کی ہے کس نے نہیں۔
فیصل صدیقی نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ انتخابات تک ہی نااہلی کو محدود رکھے جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئندہ انتخابات تک ڈیکلیریشن ازخود کیسے ختم ہوجائے گا؟ کاغذات نامزدگی مسترد ہو جائیں تو ڈیکلریشن لیکر امیدوار کہاں جائے گا؟۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں ڈیکلیریشن دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں دیا گیا، بے ایمانی کا ڈیکلیریشن آنے تک ہر شخص ایماندار تصور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فیصل واووڈا اور تاحیات نااہلی کے فیصلوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، فیصل واووڈا کیس میں نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، عدالت نے قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کر لیے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی اور کل تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے پر اٹارنی جنرل اور دیگر دلائل دیں گے۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں، 2 جنوری کو ہونے والی سماعت پر اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کے وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کو اس معاملے پر معاونین کی خدمات درکار ہوگی، ہم میڈیا یا سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے، موجودہ کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے، ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ کوشش ہوگی کہ 4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں، مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کر سکتے ہیں، بعد ازاں سماعت 4 جنوری (آج) تک ملتوی کردی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 11 دسمبر کو میر بادشاہ خان قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کی اگلی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ نااہلی 62 ون ایف کی بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔
قانون دانوں کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔