سالنامہ: 2023ء میں بنتے بگڑتے عالمی منظرنامے پر ایک نظر
اقوام متحدہ نے 2023ء کو تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا، یہ بات موسمیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں تھی۔ جہاں تک دنیا کے سیاسی درجہ حرارت کا تعلق ہے تو یہ بھی ناقابلِ برداشت حد تک بلند رہا۔ ابھی روس یوکرین تنازع کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکامی ہمارا منہ چڑا رہی تھی کہ اسرائیل حماس جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اس سے نہ صرف مغرب کی انسان دوستی کا پردہ چاک ہوا بلکہ پرامن دنیا کا خواب بھی دھندلا گیا۔ چین اور امریکا کے سربراہان کی ملاقات سے وابستہ توقعات کا محل بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔
رواں سال مشرق وسطی کے لیے ایک خوشگوار خبر سعودی عرب اور ایران کی تعلقات کی بحالی تھی جسے دنیا بھر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ سال 2023ء کے اہم واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے اگر مثبت بات سے آغاز کیا جائے تو کیسا رہے گا؟
سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی
ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے بعد 10 مارچ کو ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان سات برس سے سفارتی تعلقات معطل چلے آرہے تھے۔ معاہدے میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور تجارتی و اقتصادی روابط فعال کرنے پر اتفاق ہوا۔
اس معاہدے پر ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی جب کہ سعودی عرب کے مشیر برائے قومی سلامتی مساعد بن محمد العیبان نے دستخط کیے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کا رشتہ یمن کے باغیوں اور ایران کی سفارتی تنہائی سے جڑا ہے۔ سعودی عرب کا اصرار ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اپنی سفارتی تنہائی کے پیچھے سعودی عرب کی مغربی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کی گئی کاوشوں کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ شام سمیت مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک میں بھی دونوں ممکنہ طور پر ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ 2016ء میں ایران اور سعودیہ کے سفارتی تعلقات کی ہچکولے لیتی ناؤ اس وقت ڈوب گئی تھی جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالمِ دین کو سزائے موت دینے پر تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا۔
معاہدے میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ماہرین کے مطابق پوری دنیا بالخصوص مشرقی وسطی کے لیے خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔
روس یوکرین تنازع کا حل تلاش نہ کیا جاسکا
رواں برس 24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو ایک سال پورا ہوا۔ اس دوران درجنوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے، ہزاروں زندگیاں موت کی نذر ہو گئیں اور لاکھوں افراد بھوک اور بے گھری کے عذاب کا شکار بن گئے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اس جنگ کے شعلے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں لیکن نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ روس کے دوران اہم پیش رفت کی توقعات باندھی گئیں۔ چین نے 12 نکاتی ایجنڈے پر روس سے تبادلہ خیال کیا لیکن امریکا سمیت بہت سے مغربی ممالک نے اسے ’جانبدارانہ کوشش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
امریکا کا مطالبہ ہے کہ روس پہلے اپنے عسکری دستے یوکرین سے نکالے اس کے بعد ہی سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی۔ روس یہ بات ماننے کو بالکل تیار نہیں۔ جنگ کو 665 دن ہو چکے اور توقعات کے برعکس رواں برس کوئی راستہ نہیں نکل سکا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے چند روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک ہمارے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ میں پراعتماد ہوں کہ امریکا ہمیں دھوکہ نہیں دے گا‘۔
روس یوکرین جنگ میں آئندہ برس امریکا میں انتخابات کے بعد کسی بڑے بریک تھرو کی توقعات ہیں۔
امریکا اور چین کے صدور کی ملاقات
گزشتہ برس انڈونیشیا کے شہر بالی میں تین گھنٹے پر مشتمل ملاقات کے بعد رواں برس 16 نومبر کو پہلا موقع تھا جب امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے آمنے سامنے بیٹھ کر تبادلہ خیال کیا۔ یہ چین کے صدر شی جن پنگ کا گزشتہ چھ برس کے دوران امریکا کا پہلا دورہ تھا۔ وہ سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا آئے تھے۔
دونوں کی ملاقات کا خوش آئند ترین پہلو روابط کی بحالی اور اس بات پر اتفاق ہے کہ ’اگر دونوں رہنماؤں میں کسی کو کسی بات پر تشویش ہو تو ٹیلی فون اٹھائیں اور ایک دوسرے کو کال کریں اور ایک دوسرے کی کال سنیں‘۔
امریکا اور چین کے تعلقات رواں برس فروری میں اس وقت خراب ہوئے جب امریکا نے اپنی فضائی حدود میں ایک مبینہ جاسوس چینی غبارہ مار گرایا تھا۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے فوجی سطح پر رابطوں کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ملاقات کی ایک کامیابی فنٹانائل کی پیدوار اور غیر قانونی تجارت کے حوالے سے معاہدے پر اتفاق ہے۔ 2022ء میں امریکا کے اندر منشیات کے استعمال سے ایک لاکھ سے زائد اموات ہوئیں۔ ان منشیات میں 68 فیصد فنٹانائل استعمال ہوئی تھی۔ بائیڈن اور شی جن پنگ نے فنٹانائل کی غیر قانونی پیداوار روکنے کے لیے ایک فوری معاہدے پر اتفاق کیا۔
چین اور امریکا کے تعلقات سے دنیا کا معاشی و سیاسی مستقبل جڑا ہے۔ اگرچہ ملاقات میں کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہو سکا لیکن دو سپر پاورز کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک اچھی خبر ہے۔
سفارتی سطح پر بھارت کو پیش آنے والی شرمندگی
دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں والے 20 ممالک کی تنظیم جی 20 کا سربراہی اجلاس 9 اور 10 ستمبر کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ یہ بھارت کے لیے ایک غیر معمولی لمحہ تھا۔
ابھی خوشی کا غبارہ پوری طرح پھول نہیں پایا تھا کہ اچانک کینیڈا نے سوئی چبھا دی۔ کینیڈا نے الزام عائد کیا کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت ملوث ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ بات کی گئی تھی۔
خیال رہے بھارتی نژاد کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کو رواں سال جون میں کینیڈا کے شہر وینکوور میں قتل کر دیا گیا تھا۔ بھارت ہردیپ سنگھ کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے۔ اس نے جسٹن ٹروڈو کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کینیڈا سے مطالبہ کیا کہ وہ کینیڈا میں خالصتان کی حامی سرگرمیاں بند کروائے۔
اس کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوئی، سفارتی تعلقات معطل ہوئے اور سفارت کار ملک بدر کر دیے گئے۔ ابھی اس واقعے کی گونج پوری طرح دھیمی نہیں پڑی تھی کہ 23 نومبر کو امریکا نے بھارت کے خلاف ایک ایسا ہی پنڈورا باکس کھول دیا۔
برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے مختلف ذرائع کے حوالے سے خبر شائع کی کہ سکھ علیحدگی پسند رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کو امریکا میں قتل کرنے کی ایک سازش کو امریکا نے ناکام بنا دیا ہے۔ اس معاملے میں میبنہ طور پر بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے امکان کے پیش نظر امریکا نے بھارت کو وارننگ جاری کی۔
امریکی محکمہ انصاف کی دستاویزات کے مطابق بھارتی اہلکار نے سکھ رہنما کے قتل کا بندوبست کرنے کے لیے بھارتی شہری نکھل گپتا کی خدمات حاصل کی تھیں جسے معاوضے کے ایک لاکھ ڈالر میں سے پیشگی ادائیگی کے طور پر 15 ہزار ڈالر دیے تھے۔
پہلے کینیڈا اور پھر امریکا کی طرف سے ایسے الزامات نے بھارت کو عالمی سطح پر کافی شرمندہ کیا۔
غزہ ’بچوں کا قبرستان‘ بن گیا
رواں سال کا سب سے تکلیف دہ واقعہ اسرائیل اور حماس کی جنگ ہے جس میں گزشتہ 75 روز کے دوران تقریباً 20 ہزار انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہسپتال اور عبادت گاہیں تک بمباری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ زخمیوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ جنگ جارحیت اور درندگی کا بدترین نمونہ ہے۔
تصور کیجیے کہ مائیں اپنے بچوں کی ٹانگوں پر نام لکھ رہی ہیں تاکہ لاشیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہو سکتا ہے؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس غزہ کو ’بچوں کا قبرستان‘ قرار دے چکے ہیں۔
جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا جسے ’معرکۃ طوفان الاقصی‘ کا نام دیا گیا۔ جواب میں اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں کارروائیوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کے دوران رہائشی علاقوں سمیت حماس کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ غزہ کے رہائشیوں کو انخلا کی وارننگ بھی دی جا چکی ہے جس کے بعد لاکھوں شہریوں نے نقل مکانی کی۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انخلا کے حکم سے قبل ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے تھے۔
جنگ کے دوران امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا رویہ افسوس ناک رہا جنہوں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور جنگ بندی میں موثر کردار ادا کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دی۔ پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے کچھ روز قبل کہا کہ ’ہم اسرائیل کو وہ ساز و سامان فراہم کرتے رہیں گے جو اسے اپنے دفاع کے لیے درکار ہے، جس میں اہم گولہ بارود، ٹیکٹیکل گاڑیاں اور فضائی دفاعی نظام شامل ہے۔‘
تاہم امریکا اور یورپ کے عام شہری اسرائیلی مظالم کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلے۔ وائس آف امریکا کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کے مظاہرے میں شریک افراد سیاہ اور سفید فلسطینی سکارف پہنے ’فلسطین آزاد ہوگا‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین کے ایک گروپ نے ایک بہت بڑا فلسطینی پرچم اٹھا کر پینسلوانیا ایونیو پر مارچ کیا۔ پینسلوانیا ایونیو واشنگٹن ڈی سی کی وہ سڑک ہے، جو وائٹ ہاوس تک جاتی ہے۔ بعض مقامات پر مظاہرین کے ہاتھوں میں پیلے، سرخ اور سیاہ پلے کارڈز تھے جن پر ’غزہ کو جینے دو‘ (Let Gaza Live) اور ’غزہ پر بمباری بند کرو‘ (Stop Bombarding Gaza) کے مطالبے درج تھے۔
80 روز سے زائد گزرنے کے باوجود جنگ بندی نہیں ہوسکی۔ کیا یہ اقوام متحدہ کی ناکامی نہیں؟ آئیے اقوام متحدہ کی رواں برس کی کارکردگی کا الگ سے جائزہ لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی کارکردگی پر ایک نظر
جنگ کی روک تھام، بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے، مختلف اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنے اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں تعاون جیسے مقاصد کے ساتھ وجود میں آنے والا ادارہ اقوام متحدہ رواں سال مؤثر کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 دیگر اراکین سلامتی کونسل کے مستقل پانچ رکن ممالک کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان پانچ میں سے کسی کا بھی انکار باقی سب کو صفر کر دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کو رواں برس یوکرین روس تنازع اور پھر اسرائیل حماس تنازع، یہ دو بڑے چیلنجز درپیش تھے، یہ دونوں محاذوں پر ناکام رہا۔
امریکا بیک وقت سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور دونوں جنگوں میں فریق ہے۔ وہ کھل کر یوکرین اور اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔ ایسے میں اس سے غیر جانبداری کی توقع حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اور اگر امریکا خود فریق ہے تو عملی طور پر سلامتی کونسل کی غیر جانبداری بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
انڈیپینڈنٹ کے لیے اپنے مضمون میں بین الاقوامی امور کی ماہرہ کاملیا انتخابی فرد لکھتی ہیں کہ ’دنیا کے تین اہم اور طاقتور ممالک یعنی امریکا، فرانس اور برطانیہ اور مغرب کے دیگر بڑے ممالک یعنی جرمنی اور اٹلی نے بھی اس تنازع میں اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود کو اس تنازع کا فریق بنا لیا ہے اور بحران کے حل اور غیر جانبدارانہ ثالثی کا راستہ بند کر دیا ہے‘۔
غزہ پر جنگ بندی کے خلاف اقوام متحدہ ابھی تک دو قرار دادیں پاس کر چکا ہے جو عملی طور پر نتیجہ خیز نہیں کیونکہ رکن ممالک پر ان کی پابندی لازمی نہیں۔ فائدہ اس قرار داد کا ہے جو سلامتی کونسل سے منظور ہو۔ ایسی قرارداد کا فیصلہ تسلیم کرنا ’لازمی‘ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی کارکردگی دیکھتے ہوئے ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جو کاملیا نے اخذ کیا کہ ’دنیا میں امن و استحکام کے تسلسل کے لیے اقوام متحدہ کے طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔ اقوام متحدہ کے تمام اراکین کے ووٹوں کی بنیاد پر اور قتل و غارت کے حق اور دوہرے معیار کے بغیر فیصلے ہی انسانیت، تہذیبوں کی بقا اور دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کو کریڈٹ دینے کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اس مساوی ووٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اتحاد بنانا اخلاقی اور قابل دفاع ہے لیکن اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی آج کی کارکردگی ناقابل دفاع ہے‘۔
لکھاری ادب، فلم، موسیقی اور تاریخ سے شغف رکھتے ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل یہ ہے @FaruqAzam20
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔