• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کیسے کی جاتی ہے؟

ریٹرننگ افسر کسی بھی امیدوار کی جانچ پڑتال کے لیے مالیاتی اداروں، سیکیورٹی اداروں یا کسی بھی سرکاری اتھارٹی سے امیدوار سے متعلق معلومات منگواسکتا ہے۔
شائع December 20, 2023

ملک میں عام انتخابات کا میدان سج چکا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ انتخابی شیڈول کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی کے اجرا اور وصولی کا سلسلہ آج سے شروع ہوگیا ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدوار 20 سے 22 دسمبر تک کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں جس کے بعد امیدواروں کی ابتدائی فہرست 23 دسمبر کو جاری ہوگی۔ جمع ہونے والے کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی یعنی جانچ پڑتال 24 سے 30 دسمبر تک ہوگی پھر 13 جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کیے جائیں گے۔ لیکن یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کون اور کیسے کرتا ہے؟

کوئی بھی امیدوار الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ متعلقہ حلقے کے ریٹرننگ افسر (آر او) نے کرنا ہوتا ہے اور ایسا وہ کسی کی خواہش، پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں کر سکتا بلکہ اس کو الیکشن کمیشن کے مرتب کردہ قوانین کے مطابق ہی امیدوار کو جانچ پڑتال کی چھاننی سے گزارنا ہوتا ہے۔

آر او الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول میں طے کردہ تاریخوں پر ہی امیدوار کی جانچ پڑتال کا پابند ہوتا ہے لیکن اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں مقررہ کردہ دنوں میں تقسیم کرکے جانچ پڑتال کے لیے امیدواروں کو طلب کر سکتا ہے۔

ریٹرننگ افسر کسی بھی امیدوار کے کاغذات نامزدگی پر حلقے کے ووٹر کو اعتراض دائر کرنے کا مکمل حق فراہم کرے گا اس معاملے میں وہ امیدوار کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کی مکمل نقول فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے لیکن جس شخص کو کاغذات کی نقول درکار ہوتی ہیں وہ فی صفحہ دس روپے سرکاری فیس ادا کرے گا۔

  کاغذات نامزدگی کے اجرا اور وصولی کا عمل آج سے شروع ہوچکا ہے— تصویر: آن لائن
کاغذات نامزدگی کے اجرا اور وصولی کا عمل آج سے شروع ہوچکا ہے— تصویر: آن لائن

جس دن امیدوار کی جانچ پڑتال ہوگی اس دن اعتراض کنندہ کا آر او کے سامنے پیش ہونا بھی ضروری ہے۔ ریٹرننگ افسر کو ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی امیدوار سے غیر متعلقہ سوالات نہیں کریں گے۔ ایسی معلومات جس کا تعلق کاغذات میں درج معلومات یا اعتراض اٹھانے والے ووٹرز کی جانب سے دی گئی معلومات سے نہیں ہے اس سے متعلق سوالات نہیں کیے جائیں گے تاہم آر او کسی معاملے کی چھان بین کرواسکتا ہے۔

ایسی نامزدگی جس میں امیدوار کے نام میں غیر دانستہ غلطی سرزد ہو گئی ہو، انتخابی فہرست کے سیریل نمبر میں کوئی غلطی ہویا تجویز کنندہ یا تائید کنندہ سے متعلق کوئی معمولی غلطی ہو اس کی بنیاد پر کاغذات نامزدگی مسترد نہیں کر سکے گا۔ تاہم ایسا امیدوار جس کے تائید کنندہ یا تجویز کنندہ کے دستخط جعلی ہوں اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 60 اور 61 کے تحت غلط بیانی کی یا جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا ہو ایسے امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوسکتے ہیں۔

کاغذات مسترد کرنے کی صورت میں ریٹرننگ افسر امیدوار کو وجوہات کی مصدقہ مکمل تفصیلات فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔کاغذات منظور ہونے والے امیدواروں کی فہرست ریٹرننگ افسر فارم 32 پر عوام کی معلومات کے لیے اپنے دفتر کے کسی مقام پر چسپاں کرنے کا بھی پابند ہوگا اور اس کی تفصیلات الیکشن مینجمنٹ سسٹم سمیت الیکشن کمیشن کو بھی فوری فراہم کرے گا۔

  چھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر کاغذات مسترد ہوسکتے ہیں
چھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر کاغذات مسترد ہوسکتے ہیں

ریٹرننگ افسر جانچ پڑتال کے لیے کن اداروں کی مدد لے سکتا ہے؟

قومی اسمبلی کا حلقہ ہو یا صوبائی اسمبلی کا حلقہ متعلقہ ریٹرننگ افسر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کی جانچ پڑتال کے لیے مالیاتی اداروں، سیکیورٹی اداروں یا کسی بھی سرکاری اتھارٹی سے امیدوار سے متعلق معلومات منگواسکتا ہے۔ ریٹرننگ افسر کی سہولت کے لیے الیکشن کمیشن نے آن لائن اسکروٹنی سسٹم بھی تیار کر رکھا ہے جس میں آر او امیدوار کی جانب سے جمع کروائے گئے کوائف کی جانچ کے لیے نادرا، قومی احتساب بیورو، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر اور ایف آئی اے سے منسلک ریکارڈ کی مدد لے سکتا ہے۔

کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیل کہاں کی جاسکے گی؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان متعلقہ صوبے کی ہائی کورٹ سے کاغذات نامزدگی پر اپیل دائر کرنے اور فیصلوں کے لیے ایپلیٹ ٹربیونل قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے جس میں ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو متعین شدہ دنوں میں اپیلوں پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ٹربیونل میں امیدوار کا مخالف یا حلقے کا کوئی بھی ووٹر کاغذات منظور ہونے یا مسترد ہونے کے خلاف درخواست دائر کر سکتا ہے۔

اگر ٹربیونل بروقت اپیل کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ایسی صورتحال میں ریٹرننگ افسر کا فیصلہ ہی حتمی تسلیم کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے اپیلیں دائر کرنے کی آخری تاریخ 3 جنوری مقرر کی ہے جبکہ ٹربیونلز کی جانب سے اپیلوں پر فیصلہ سنانے کی آخری تاریخ 10جنوری 2024ء مقرر کی گئی ہے۔ اس کے بعد آر او امیدواروں کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری کرے گا۔

  الیکشن کمیشن متعلقہ ہائی کورٹس سے ایپلیٹ ٹربیونل قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے
الیکشن کمیشن متعلقہ ہائی کورٹس سے ایپلیٹ ٹربیونل قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے

امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لینا چاہے تو کیا کرے؟

الیکشن میں اپنی قسمت آزمائی کرنے والا امیدوار اگر کسی موقع پر یہ سوچتا ہے کہ وہ الیکشن نہیں لڑنا چاہتا اور اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا خواہش مند ہے تو ایسی صورتحال میں وہ ریٹرننگ افسر کو باضابطہ طور پر اپنے دستخط کے ساتھ تحریری درخواست دے گا یا وہ اپنے مقرر کردہ وکیل کے ذریعے بھی درخواست دے سکتا ہے۔ بعدازاں ریٹرننگ افسر اس درخواست کی تصدیق کرے گا۔

ایک بار درخواست منظور ہوگئی تو وہ واپس یا منسوخ نہیں کی جاسکے گی جبکہ ریٹرننگ افسر اپنے دفتر میں یہ درخواست بھی چسپاں کرے گا۔ اگر کوئی امیدوار الیکشن سے دستبردار ہونا چاہے تو وہ پولنگ والے دن سے کم از کم چار دن قبل ریٹرننگ افسر کو اپنے دستخط شدہ درخواست دے کر ایسا کرسکتا ہے جبکہ آر او اس کی تصدیق اور منظور کرنے کے بعد فارم 33 پر امیدواروں کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری کرکے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر آگاہ کرے گا۔

کاغذات منظوری کے بعد کسی امیدوار کی وفات ہوجائے تو کیا ہوگا؟

اگر کوئی امیدوار الیکشن والے دن سے قبل یا ووٹنگ والے دن فوت ہو جائے تو ریٹرننگ افسر عوامی نوٹس کے لیے الیکشن کی کارروائی کو روک دے گا اور بعد ازاں الیکشن ایکٹ کے مطابق نیا انتخاب کروانے کا اعلان کرے گا ایسی صورتحال میں حلقے کے دیگر امیدواروں کی جانب سے نئے کاغذات نامزدگی یا انتخابی فیس جمع نہیں کروانی پڑے گی۔

امیدوار کے بلامقابلہ منتخب ہونے پر کیا کارروائی ہوگی؟

کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد حلقے میں اگر ایک ہی امیدوار باقی رہ جاتا ہے تو ٹربیونل کی اپیلوں کا فیصلہ آنے سے قبل ریٹرننگ افسر اس کی کامیابی کا نوٹس جاری نہیں کر سکتا۔ امیدواروں کی دستبرداری کی صورت میں بھی ایک ہی امیدوار باقی رہ جاتا ہے تو ریٹرننگ افسر اسے بلامقابلہ منتخب ہونے کا نوٹس جاری کرکے الیکشن کمیشن کو فارم 34 کے ساتھ معلومات فراہم کرنے گا پابند ہوگا۔

علی وقار

لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔