• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm

الیکشن کمیشن انتخابی عملے کو کن امور کی تربیت فراہم کرتا ہے؟

الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں سول بیوروکریسی سے 144 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور 859 ریٹرننگ افسران تعینات کیے ہیں جو کمیشن کی زیر نگرانی صاف و شفاف الیکشن کروانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
شائع December 18, 2023

عام انتخابات 2024ء کے انعقاد سے متعلق پھیلی بے یقینی کا اس وقت خاتمہ ہوگیا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15 دسمبر کی رات کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ایگزیکٹیو یعنی سرکاری افسران کے ذریعے الیکشن منعقد کرنے کے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو بحال کرتے ہوئے ان کی تربیت شروع کرنے کے احکامات جاری کیے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ الیکشن شیڈول کے مطابق الیکشن لڑنے کے خواہش مند امیدوار 20 دسمبر 2023ء سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا سکیں گے۔ لیکن اس سے پہلے سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سرکاری افسران کو الیکشن کے انعقاد کے لیے کیسے تیار کررہا ہے اور ان کو کیا کچھ سکھایا جارہا ہے کیونکہ بہت سے ایسے سرکاری افسران ہیں جو اپنی زندگی میں پہلی بار کسی الیکشن ڈیوٹی کا حصہ بننے جارہے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں سول بیوروکریسی سے 144 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور 859 ریٹرننگ افسران تعینات کیے ہیں جو کمیشن کی زیر نگرانی صاف و شفاف الیکشن کروانے کے ذمہ دار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی جانے والی تربیت کے لیے 184 صفحات پر مشتمل خصوصی کتابچہ تیار کیا گیا ہے۔ کمیشن کے ایلیٹ ٹرینرز نے تمام ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی تربیت کی۔ تربیت کے مراحل کو پانچ مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے قارئین کو تمام حصوں کے بارے جامع طور پر آگاہی دی جائے۔

انتخابات کا انعقاد

  18 سال کی عمر کا شناختی کارڈ رکھنے والا ہر شخص ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے
18 سال کی عمر کا شناختی کارڈ رکھنے والا ہر شخص ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے

الیکشن کمیشن کی جانب سے سب سے پہلے ریٹرننگ افسران کو بتایا گیا کہ صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد جمہوریت کے لیے سب سے ضروری ہے اور ہر وہ شہری جو 18 سال کی عمر کا ہے اور قومی شناختی کارڈ رکھتا ہے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ ہر وہ شہری جو 25 برس کی عمر کا ہے وہ قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا مجاز ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ تمام ووٹرز بشمول کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار افراد آزادانہ طریقے سے اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 220 کے تحت وفاقی و صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کو اپنی خدمات فراہم کرنے کی پابند ہیں جبکہ ریٹرننگ افسر آئین کے آرٹیکل 220 کے سیکشن 5 کے مطابق کسی بھی محکمے سے الیکشن ڈیوٹی کے لیے افسران و اہلکار تعینات کر سکتا ہے۔

الیکشن کے دوران کس کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟

الیکشن کے انعقاد کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن سے لے کر انتخابی نشان جاری کرنے کے علاوہ الیکشن شیڈول کے اعلان اور پولنگ عملے کی تعیناتی کے امور بھی شامل ہیں۔

  اگر کسی حلقے میں کواتین ووٹرز کی شرح 10 فیصد سے کم ہو تو کیا ہوتا ہے؟
اگر کسی حلقے میں کواتین ووٹرز کی شرح 10 فیصد سے کم ہو تو کیا ہوتا ہے؟

اس کے علاوہ چند بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ کمیشن اس بات کو یقنی بنائے کہ اگر کسی حلقے یا پولنگ اسٹیشنز پر خواتین کے ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح دس فیصد سے کم ہے تو اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے گا جبکہ تمام سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں پر پانچ فیصد انتخابی ٹکٹس خواتین کو دیں گی اور کامیاب امیدوار کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد 60 دنوں تک کمیشن الیکشن ٹرابیونل کے فرائض بھی سر انجام دے گا۔

اس کے بعد صوبائی الیکشن کمشنرز کی ذمہ داریاں آتی ہیں جس میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے حلف کا بندوبست کرنا، ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف ٹرابیونل سے رابطہ کرنا، ریٹرننگ افسران کو مطلوبہ سازو سامان کی فراہمی یقینی بنانا، الیکشن کے لیے قائم کیے گئے پولنگ اسٹیشن کی فہرستیں فراہم کرنا اور الیکشن کے سامان کی ترسیل کو یقینی بنایا بھی صوبائی الیکشن کمشنر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کا کردار الیکشن کے انعقادکے لیے بہت اہم ہوتا ہے جس کے لیے ریٹرننگ افسران نے حلف لینا ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشاورت سے انتہائی حساس اور حساس پولنگ اسٹیشنز کی نشاندہی کے علاوہ تمام پولنگ اسٹیشنز اور پولنگ اسٹاف کی حتمی منظوری دینا بھی ان کے کام میں شامل ہے۔

انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ مالی وسائل کی ریٹرننگ افسران کو تقسیم اور اس کا حساب مرتب کرنے اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا نمائندوں سمیت دیگر مبصرین کو ایکریڈیشن کارڈ جاری کرنے سمیت کئی مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی ہے۔ الیکشن قومی اسمبلی کا ہو یا صوبائی اسمبلی کا ریٹرننگ افسر کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اور ٹریننگ میں انہیں بنیادی طور پر 35 مختلف ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے جس میں حلف لینے سے لے کر الیکشن کے سامان کی تقسیم، تربیت یافتہ پولنگ عملے کی تعیناتی، ٹرانسپورٹ کا انتظام، انتخابی نتائج اکٹھے کرنا اور مرتب کرنے سمیت الیکشن ڈے کے بعد استعمال نہ ہونے والا سامان متعلقہ حکام کے حوالے کرنا شامل ہے۔

اسسٹنٹ ریٹرننگ افسر کا کام پولنگ ڈے پر انتخاب کا عمل چلانا ہے جبکہ وہ کاغذات کی جانچ پڑتال یا کاغذات نامزدگی جمع نہیں کر سکتا اور ریٹرننگ افسران کے ذمہ جو بھی کام ہے وہ الیکشن کمیشن کی پیشگی اجازت کے بغیر ازخود نہیں کرسکتا۔

ریجنل الیکشن کمشنرز اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کا بنیادی کردار انتخابات کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن، الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 234 کے مطابق ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ ٹیمز تعینات کرتا ہے جو انتخابی حلقے میں ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقنی بنانے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کے خلاف الیکشن کمیشن کو اپنی رپورٹس جمع کرواتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر امیدوار یا سیاسی جماعت کے خلاف انکوائری کرنے کے بعد کوئی حکم بھی جاری کر سکتا ہے۔

  انتخابات کے روز انتخابی عملے کے ذمے کیا کام ہوتا ہے؟
انتخابات کے روز انتخابی عملے کے ذمے کیا کام ہوتا ہے؟

کسی بھی انتخابی حلقے میں بننے والے پولنگ اسٹیشنز پر الیکشن کروانے کا ذمہ دار پریزائڈنگ افسر ہوتا ہے جس کی کم و بیش 30 ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ان میں پولنگ اسٹیشن میں امن و امان برقرار رکھنا، پولنگ کا عمل بروقت شروع کروانا، صرف رجسٹرڈ ووٹر کو پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل ہونے کی اجازت دینا، بیلٹ باکس کو مکمل طور پر سیل کرنا، انتخاب شروع ہونے سے دو گھنٹے قبل پولنگ عملے کی موجودگی یقینی بنانا، فارم 45 اور فارم 46 کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنا، سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 کا رزلٹ فراہم کرنا شامل ہے۔ اگر پریزائڈنگ افسر کسی بھی موقع پر یہ سمجھتا ہے کہ خواتین کو آزادنہ طریقے سے ووٹ کاسٹ نہیں کرنے دیے جارہے یا روکا جارہا ہے یا کسی مخصوص معاہدے اور ڈیل کے تحت ووٹ ڈالا جا رہا ہے تو وہ اس کی خصوصی رپورٹ ریٹرننگ افسر کو دینے کرنے کا پابند ہے۔

پولنگ کے دن سے پہلے کی کارروائی

ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی، ریٹرننگ افسران اور دیگر عملے کی تعیناتی کے علاوہ الیکشن شیڈول جاری کرنا اور دیگر ضروری قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ریٹرننگ افسران (آر او) کی ذمہ داریوں کا مکمل طور پر آغاز ہو جاتا ہے۔ آر او الیکشن کے دن سے قبل دو بنیادی فرائض سر انجام دیتا ہے جس میں کاغذات نامزدگی کا عوامی نوٹس جاری کرنے سے لے کر امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرنا اور دوسری جانب الیکشن والے دن کی تیاری شامل ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرنے کے بعد ریٹرننگ افسر امیدوار کو ایک رسید لازمی فراہم کرے گا جس پر کاغذات جمع کرنے کا وقت دن اور جگہ لازمی درج کی جائے گی۔

  الیکشن کے دن سے قبل ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری ہے کہ انتخابی سامان کی پُرامن ترسیل کو یوینی بنائے
الیکشن کے دن سے قبل ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری ہے کہ انتخابی سامان کی پُرامن ترسیل کو یوینی بنائے

امیدواروں کو انتخابی نشان جاری کرنے کی ذمہ داری بھی ریٹرننگ افسر کے پاس ہوتی ہے۔ ریٹرننگ افسران کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن سے ووٹر فہرستوں کی دو کاپیاں، ایک تصاویر والی اور دوسری بغیر تصاویر والی حاصل کریں گے جبکہ وہ جانچ پڑتال کا عمل شروع ہونے سے تین روز قبل ووٹر فہرستیں لازمی حاصل کریں۔ ووٹر فہرستیں حاصل کرنے کے بعد ریٹرننگ افسر جامع طور پر فہرستوں کا معائنہ کرے جہاں اس کوئی غلطی یا ابہام نظر آئے تو وہ فوری طور پر متعلقہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن سے رابطہ کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔

الیکشن کے دن سے پہلے ریٹرننگ افسر کی ذمہ داریوں میں انتخابی سامان کی پر امن ترسیل بھی شامل ہے جس میں حساس مواد یعنی کہ بیلٹ پیپرز، انتخابی فہرستیں، مہریں، تابنے کی سیلیں، سرکاری کوڈ والی مہریں، بیلٹ باکس کو لگانے والی سیلیں شامل ہیں اس کے علاوہ غیر حساس سامان جس میں امیدواروں کی فہرستیں، سیاہی، تھیلے اور اسٹیشنری سمیت دیگر ضروری سامان ہر پولنگ اسٹیشن تک پہنچانا آر او کی ذمہ داری میں شامل ہے۔

پولنگ کے دوران ریٹرننگ افسر اور پریزائڈنگ افسر کی ذمہ داری

سب سے پہلے ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹ ڈالنے کا جو وقت مقرر کیا گیا ہے اس پر ووٹنگ کا عمل شروع کروائے اور پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے وہ حلقے میں کسی بھی جگہ کا معائنہ کر سکتا ہے۔

ووٹنگ کے عمل میں کچھ ایسی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے جس میں ریٹرننگ افسر یا پریزائڈنگ افسر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس میں ٹینڈر ووٹ یعنی کہ ایسا ووٹر جس نے ابھی ووٹ کاسٹ نا کیا ہو اور اس کے انگوٹھے پر سیاحی کانشان بھی نا ہو لیکن انتخابی فہرست میں پریزائڈنگ افسر کے پاس اس کے نام کے سامنے ووٹ کاسٹ کیے جانے سے متعلق معلومات درج ہوں۔

ایسی صورتحال میں پریزائڈنگ افسر ووٹر کے شناختی کارڈ کی کاپی حاصل کرنے کے بعد اسے بیلٹ پیپر جاری کرے گا لیکن بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے بعد وہ بیلٹ باکس میں ڈالنے کی بجائے ٹینڈر بیلٹ پیپر پیکٹ 4 میں ڈالے گا۔ جو بھی ایسا ووٹ کاسٹ ہوگا اس کی مکمل فہرست فارم 43 میں درج کی جائے گی۔ اگر اپنا دعویٰ درست ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کے باب 10 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

ٹینڈر بیلٹ پیپرز کو گتنی میں شمار کیا جائے گا جبکہ پریزائڈنگ افسر ایسے ووٹوں کی فہرست اور شناختی کارڈ کی کاپیاں ریٹرننگ افسر کو فراہم کرے گا۔ ریٹرننگ افسر تمام تر معلومات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کرے گا جس پر وہ نادرا سے فرانزک تصدیق کروائے گا اگر کسی شخص کا فراڈ ثابت ہوا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی اور متعلقہ الیکشن عملے کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔

اگر کوئی پولنگ ایجنٹ، الیکشن ایجٹ اور امیدوار کسی ووٹ کو ووٹنگ ڈے پر چیلنج کرنا چاہتا ہے جس پر جعلی ووٹ کاسٹ کرنے، یا دوسرے ووٹرز کو ورغلانے کا الزام ہو تو ایسے معاملے میں پریزائڈنگ افسر کو ایسے ہر کیس میں 100 روپے جمع کروانے ہوں گے جس پر اسے غلط ثابت ہونے پر نتائج سے بھی آگاہ کرنا ہوگا۔ الیکشن عملہ ووٹر کو بیلٹ پیپر جاری کرے گا جبکہ یہ بیلٹ پیپر بیلٹ باکس میں نہیں بلکہ ’چیلنج بیلٹ پیپر‘ والے پیکٹ 7 میں ڈال دیے جائیں گے جبکہ چیلنج کیے گئے تمام ووٹرز کی تفصیلات فارم 44 میں درج کی جائیں گی۔

اسی طرح ایسا شخص جو کسی معذوری کے باعث ووٹ کاسٹ کرنے کے قابل نہیں وہ سیکشن 84 (9) اور رولز 74 کے تحت اپنے ساتھ کسی شخص کو لا سکتا ہے جس کی عمر 18 سال سے کم نا ہو اور ناہی وہ الیکشن ایجنٹ یا امیدوار ہو ۔ اس صورتحال میں پریزائڈنگ افسر معذور شخص کے ساتھ آنے والے شخص کو ووٹ ڈالنے کے طریقے سے آگاہ کرے گا اور وہ بیلٹ پیپر پر ووٹر کی مرضی کے خانے والے ڈبے میں مہر لگانے کا پابند ہوگا جبکہ کسی بھی صورت میں وہ ووٹ کی رازداری کو آفشاں کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ ایسے ووٹر اور اس کے ساتھ آنے والے سہولت کار کی تمام تفصیلات بھی الگ سے مرتب کی جائیں گی۔

مسترد شدہ اور منظور شدہ تمام بیلٹ پیپرز کو الگ الگ تھیلے میں رکھا جائے گا۔ ایسا بیلٹ جس پر زیادہ سیاہی کی وجہ سے بیلٹ پیپر پر ایک خانے سے دوسرے خانے پر نشان آگیا ہو وہ ووٹ مسترد نہیں ہوگا۔ ایسا بیلٹ پیپر جس میں مہر کا کچھ حصہ دو انتخابی نشان کے درمیان قائم لائن سے باہر ہو اسے مسترد نہیں کیا جائے گا اور اگر کسی انتخابی نشان پر ایک سے زائد مہریں لگی ہوں تو وہ ووٹ بھی تسلیم کیا جائے گا۔

پریزائڈنگ افسر کی مہر اور دستخط کے بغیر بیلٹ پیپر کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور وہ مسترد ووٹ شمار ہوگا۔ کسی بھی قسم کی لکھائی یا نشانی ہونے کی صورت میں، کوئی غیر ضروری چیز بیلٹ پیپر کے ساتھ چسپاں ہونے، بیلٹ پر نو خانوں والی مہر کا نشان نہ ہونے اور ایسا بیلٹ پیپر جس پر ووٹر کی مہر دو انتخابی نشانوں کے درمیان ہے وہ مسترد ہوں گے اور ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔

پولنگ کا وقت ختم ہونے پر پریزائڈنگ افسر بیلٹ پیپرز کو منظم طریقے سے محفوظ کرے گا اور قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے مہیا کیے گئے سبز تھیلے میں ڈالے گا جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ کے لیے دیے گئے سفید تھیلے میں سارا سامان ڈالے گا جبکہ نیلے تھیلے میں مخصوص کوڈ والی مہریں، نو خانوں والی مہریں اور دیگر الیکشن مٹیریل ڈال کر متعلقہ ریٹرننگ فسر کے دفتر میں جمع کروائے گا۔

پولنگ کے بعد کی ذمہ داریاں

پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ریٹرننگ افسر کے لیے سب سے اہم ترین مرحلہ انتخابی نتائج کو مرتب کرنا ہے۔ سب سے پہلے ریٹرننگ افسر کو ہرپولنگ اسٹیشن سے آنے والے پریزائڈنگ افسر سے فارم 45 اور فارم 46 کا ریکارڈ ذاتی طور پر وصول کرنا ہوگا۔ جبکہ فارم 47 پر ابتدائی نتائج مرتب کرے گا۔ ریٹرننگ افسر الیکشن والے دن کے فوری بعد رات 2 بجے تک فارم 47 کا رزلٹ الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا پابند ہوگا لیکن کسی غیر معمولی صورتحال میں وہ مکمل نتائج مرتب کرکے اگلی صبح 10 بجے الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔

  پولنگ مکمل ہونے کے بعد عملے کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟
پولنگ مکمل ہونے کے بعد عملے کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟

الیکشن مینجمٹ سسٹم کے تحت ریٹرننگ افسر تمام فارم 45 اور حتمی نتیجہ، فارم 48 اور فارم 49 الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا پابند ہوگا اور تمام حساس مواد جیسے بیلٹ پیپرز، ووٹر فہرستیں اور دیگر سامان الیکشن کمیشن کے محفوظ کمرے میں جمع کروانے کا پابند ہو گا۔

ریٹرننگ افسر انتخابی امیدوار سے انتخابی اخراجات کی تفصیلات بھی حاصل کرے گا۔ ریٹرننگ افسران کو آگاہ کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے کا امیدوار 1 کروڑ روپے کے انتخابی اخراجات کر سکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار چالیس لاکھ روپے تک انتخابی اخراجات کرنے کا مجاز ہے۔ تمام انتخابی امیدوار نتائج جاری ہونے کے 30 دن کے اندر انتخابی اخراجات کی تفصیل ریٹرننگ افسر کو جمع کروانے کے پابند ہیں جبکہ جیتنے والے امیدوار کے لیے یہ مدت صرف 10 دن رکھی گئی ہے۔ اگر جیتنے والا امیدوار انتخابی اخراجات کی تفصیلات جمع نہیں کرواتا تو اس کی کامیابی کا حتمی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جائےگا۔

تربیت حاصل کرنے والے افسران کو کیا ملے گا؟

سرکاری ملازمت کرنے والا ہر افسر آئین پاکستان کے مطابق پابند ہے کہ الیکشن کمیشن کو جب بھی ضرورت پڑے گی وہ مدد کرنے کے لیے دستیاب ہوگا۔ ہماری کچھ ایسے سرکاری افسران سے بات ہوئی جو پہلی بار الیکشن کروانے کی ذمہ داریاں نبھانے جارہے ہیں۔ وہ کافی پُرعزم نظر آئے اور صاف و شفاف انتخابات کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کو تیار تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سرکاری ڈیوٹی اور الیکشن ڈیوٹی ایک ساتھ کرنے سے کوئی بوجھ یا تھکاوٹ تو محسوس نہیں ہو رہی تو یہی جواب ملا کہ نوکری کیا اور نخرا کیا۔ یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں خوش اصلوبی سے سر انجام دیں۔

ایسے سرکاری ملازمین جو پہلے بھی الیکشن ڈیوٹی سر انجام دے چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ انہیں بہت جامع تربیت دی گئی ہے اور الیکشن مینجمنٹ سسٹم سے شفافیت مزید بڑھے گی جبکہ ماضی میں تو ایک ہی دن میں تربیت دے کر بھیج دیا جاتا تھا۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا اس مشق کا انہیں کچھ اعزازیہ بھی ملے گا تو اکثریت اس بارے میں لاعلم تھی جبکہ الیکشن کمیشن کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ الیکشن ڈیوٹی کرنے والے تمام اسٹاف کو الیکشن کمیشن ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اعزازیہ کی صورت میں کچھ نا کچھ ضرور دیتا ہے۔

علی وقار

لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔