مقبوضہ کشمیر کی حیثیت پر بھارتی سپریم کورٹ کا غیرقانونی فیصلہ، وزیرخارجہ کا عالمی اداروں کو خط
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اقوام متحدہ، یورپیئن یونین اور اسلامی تعاون تنظیم کی قیادت کو خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے غیرقانونی فیصلے کی جانب طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے 5 اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ستمبر 2024 تک مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی تھی۔
آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔
بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آبادکاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے 11 جولائی کو معاملے کی سماعت شروع کی تھی اور 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔
ہفتہ کو دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں انہوں نے اقوام متحدہ،اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین کی قیادت کو خطوط لکھ کر ان کی توجہ بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی غیر قانونی حیثیت کی طرف مبذول کرائی ہے جو کہ بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں وکمشیر کی حیثیت سے متعلق ہے۔
ان خطوط میں وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے کی حتمی حیثیت کے تعین کے لیے ملکی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کو مستحکم اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کو سلب کرنے کے لیے بھارتی حکام کی جانب سے کیے جا رہے غیر قانونی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اور اس کے بعد کے کئی اقدامات کا مقصد بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنا ہے۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ان غیر قانونی اقدامات کا واضح مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین میں ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں بالخصوص قرارداد 122 (1957) کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی یہ توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جموں و کشمیر سے متعلق قراردادوں میں موجود دفعات سے تجاوز نہیں کر سکتی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ جموں و کشمیر کے تنازع پر اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائے۔
وزیر خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیاں بند کرے اور غیر قانونی زیر قبضہ کشمیرمیں 5 اگست 2019 سے کیے گئے اپنے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے۔