شوکت صدیقی برطرفی کیس: سابق سربراہ آئی ایس آئی فیض حمید و دیگر کو نوٹس جاری
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔
شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس کی براہ راست نشریات سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پردیکھی جاسکتی تھی، براہ راست عدالتی کارروائی اس یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پر نشر کی گئی۔
آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا، سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں، کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے، جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 (3) کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں، اصل بنیفشری تو کوئی اور ہے، آپ نے درخواست میں اصل بنیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا، آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھےالزامات لگائے، جن پر الزامات لگائے گٸے وہ کسی اور کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے، سہولت کاری کرکے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں، سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ شوکت عزیز صدیقی فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے، وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی تو ملک میں سچ کی جان جانا ہی ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ ستر سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا 70 سال سے جو ہو رہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج کو چلاتا کون ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں، جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے، سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرفداری نہیں کریں گے۔
وکیل بار کونسل صلاح الدین نے کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم ان کو فریق بنا رہے ہیں، شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی، مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔
چیف جسٹس نے بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کیا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں، کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟ کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں؟ نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟
وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباو ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 (3) کا دائرہ کار نہیں بنتا، ہمیں نا بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں، آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسئلہ یہ کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے، ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟
وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں؟
بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اپنایا کہ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی بانی پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوئی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم طریقے سے چلیں گے، شوکت صدیقی کو پنشن تو سرکار ویسے بھی دے دے گی، شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے، واپس بحال تو نہیں ہو سکتے، سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں، 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں، آپ کو دے دیں گے، اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں، ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں یہاں لوگ آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے؟ ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لینے سے روکا جب کہ اس ملک کی حقیقت یہی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے منہ میں الفاظ نہ ڈالیں، یہ آئینی عدالت ہے یہاں آئینی زبان استعمال کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ کہاں سیاسی دائرہ اختیار ختم اور عدالتی دائرہ شروع ہوتا ہے، آپ کا کیس کب سے مقرر نہیں ہوا یہ الزام ہمارے سامنے کھڑے ہو کر لگائیں ہم معذرت کریں گے، الیکشن کی تاریخ سے متعلق سیاسی جماعت آئی تو 12 روز میں ہم نے فیصلہ کیا، ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے آئینی اداروں کو حکم دیا کہ انتخابات کرانے کی زمہ داری پوری کریں، مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے، قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے، قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وہ بینچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ جو فیض حمید چاہتے تھے وہ ہوا، فیض حمید چاہتے تھے الیکشن 2018 سے پہلے نواز شریف کی ضمانت نہ ہو۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نوازشریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ اپیلوں پر ابھی فیصلہ ہوا اور نوازشریف بری ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ تقریر میں فیض آباد دھرنے کو اسپانسرڈ قرار دیا گیا ہے، فیض آباد دھرنا اسپانسر کس نے کیا تھا؟
حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آپ نے خود دھرنا کیس کا فیصلہ دیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے کو چھوڑیں جو شوکت صدیقی نے لکھا وہ بتائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی سے کس قسم کا حکم چاہتے تھے؟
حامد خان نے کہا کہ بریگیڈیئر فیصل مروت نے بول ٹی وی کو آئی ایس آئی پروجیکٹ قرار دیتے ہوئے شعیب شیخ کی بریت کا کہا، بریگیڈیئر عرفان رامے نے بھی بول کے حوالے سے بات کی تھی، ایڈیشنل سیشن جج پرویز القادر میمن کو 50 لاکھ رشوت دے کر شعیب شیخ کو بری کروایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ وہ ناراض ہیں، اس سنی سنائی بات پر قمر جاوید باجوہ کو کیوں نوٹس کر دیں؟ جنرل باجوہ سے تو کڑی نہیں جڑ رہی، آپ کہتے ہیں کہ فیض حمید جنرل (ر) باجوہ کے کہنے پر آئے، جنرل قمر جاوید باجوہ پر تو براہ راست الزام ہی نہیں،آج کل تو لوگ کسی کا نام استعمال کر لیتے ہیں، رامے بھی اس کیس سے غیر متعلقہ ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا، سپریم کورٹ نے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ 3 افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا ان کا براہ راست تعلق نہیں۔
سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، بریگیڈیئر فیصل مروت اور طاہر وفائی کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کی مزید سماعت سردیوں کی تعطیلات کے بعد ہوگی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواست میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کے لیے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔
خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔
جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے جسٹس پاکستان کو مختلف خطوط لکھے جن میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
نومبر 2020 کے اختتام پر انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کے نام بھی ایک خط لکھا تھا جو بظاہر ان کا تیسرا ایسا خط تھا جس میں کیس کی جلد سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔
اس طرح کے ایک خط میں سابق جج نے لکھا تھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کا ان کے لیے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
اس خط کا موضوع شوکت عزیز صدیقی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے آئینی درخواست 2018/76 کے نمٹانے میں طویل تاخیر سے متعلق تھا۔
خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔
ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔
سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ ’میرے کیس میں اس کی خاص مثال ملتی ہے جہاں بینچ کے واضح احکامات کے باوجود درخواست کو کبھی خود سے مقرر نہیں کیا گیا اور ہر مرتبہ میں نے تحریری درخواستوں کے ذریعے آپ (چیف جسٹس) تک رسائی حاصل کی‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’میری حیرانی اور مایوسی کو 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن دفتر کی جانب سے درخواست کو مقرر کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔