کیا کاشت کاروں سے انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے؟
ریونیو بڑھانے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان خود کو ہمیشہ بین الاقوامی قرض دہندگان کے رحم وکرم پر پاتا ہے۔ فی الحال ہم ایک آئی ایم ایف معاہدے میں شامل ہیں جو حکومت کو ریونیو میں اضافہ کرنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانے کا پابند کرتا ہے۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک ریاست معیشت کے تمام شعبوں پر یکساں طور پر ٹیکس عائد نہ کرے۔ ان شعبہ جات میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے جہاں زرعی پیداوار پر مؤثر ٹیکس لگانے کی گنجائش موجود ہے۔
پاکستان کی 350 ارب ڈالرز کی مجموعی معیشت میں تقریباً پانچواں حصہ زراعت کا ہے۔ اگر یہ شعبہ معیشت میں اپنا منصفانہ حصہ ڈال رہا ہے تو موجودہ سال کے 9 ہزار 415 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کے طے شدہ ہدف کا پانچواں حصہ زرعی پیداوار سے آنا چاہیے۔ تاہم متوقع رقم کا چھوٹا سا حصہ ہی حاصل ہوپاتا ہے۔
لوگوں میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زراعت کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے مطابق زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر دیگر کسی بھی آمدنی کی طرح ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ٹیکس فیڈرل بورڈ آف ریونیو نہیں بلکہ صوبائی حکام وصول کرتے ہیں۔
کاشت کار اور دیگر مفاد پرست گروہ زرعی انکم ٹیکس کے خلاف مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر محسوس کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر پہلے سے ہی بالواسطہ طور پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس لیے ان سے انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کی شکایت بھی کرتے ہیں جوکہ ان کی آمدنی پر بالواسطہ ٹیکس جیسا ہے۔ اگرچہ ایسی شکایات غلط نہیں ہیں لیکن 2022ء میں گندم کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہونے سے قیمتوں پر حکومتی کنٹرول غیر موثر ہوگیا ہے۔
البتہ دیگر اجناس جیسے کپاس اور چاول کو برآمد کرنے کی آزادی ہے بلکہ حکومتی پالیسی کے تحت چاول کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دیگر اہم اجناس میں چینی وہ واحد شے ہے جو اس سے مستثنیٰ ہے۔ چینی سخت حکومتی کنٹرول کے تابع ہے اور اسے عام طور پر برآمدی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پابندیوں کو پورا کرنے اور مقامی صنعتوں اور بڑے کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے چینی کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگایا جاتا ہے۔
بہت سے ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ محدود دستاویزی معیشت اور وسیع جغرافیائی رقبے پر زراعت کی وجہ سے اس پر زرعی ٹیکس کا نفاذ ممکن نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے زرعی ریونیو پر فرضی ٹیکس عائد کیا اور اس ٹیکس کی بنیاد اصل پیداوار یا پیداواری صلاحیت کے بجائے زمین کے کرائے پر رکھی۔
تاہم اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ اب پالیسی سطح پر اس کام کو کرنے کا عزم موجود ہے تو سیٹلائٹ تصاویر اور مشین لرننگ ٹیکنالوجیز کے دور میں زراعت پر ٹیکس لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت اگر کسان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں زراعت کو باضابطہ طور پر بڑی معیشت کا حصہ سمجھا جائے اور قومی سپلائی چین کے حصے کے طور پر دستاویزی شکل دی جائے تو انہیں اس طرح کے خیال کی وکالت کرنی چاہیے۔
یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ ریونیو اسٹاف اب بھی اپنے ہاتھوں سے زرعی ریونیو وصول کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے وہ گزشتہ 100 سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ مروجہ نظام میں اگر کوئی ادائیگی نہیں کرتا ہے یا اس سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے تو نگرانی یا ناانصافی کا ازالے کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ پورے نظام کو جدید بنایا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور دیگر قرض یا عطیہ دہندگان کو قیادت کرنا ہوگی کیونکہ ہمارا ملکی نظام ذاتی مفادات کے ماتحت نظر آتا ہے جس کی وجہ سے زراعت اور دیہی معیشتوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے شفافیت لانے کا امکان موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت داروں کو چاہیے کہ وہ زرعی زمینوں کو ڈیجیٹل بنانے اور زمین کے ریکارڈز کو آسانی سے تلاش کرنے کے قابل بنانے کے لیے گرانٹ فراہم کریں۔ دوسرے مرحلے کے طور پر زرعی زمینوں کی تمام تصاویر سال بھر انفرادی کاشت کاروں (ان کی ملکیت میں موجود رقبے سے قطع نظر) کے ساتھ ساتھ حکومت کو فراہم کی جائیں۔ ان تصاویر کے ذریعے کسانوں کو وقتاً فوقتاً اپنی فصلوں کا جائزہ لینے کے قابل بنانا چاہیے (روزانہ جائزہ لینا بہترین ہوگا) جبکہ حکومت کو فصل کے حوالے سے اعدادوشمار کی نگرانی اور اسے جمع کرنے میں آسانی ہوگی۔
اس سے حکومت کو ٹیکس وصولی میں بہت حد تک مدد ملے گی کیونکہ ڈیجیٹل دور میں کچھ چھپایا نہیں جا سکتا۔ مشین لرننگ حکومت اور کسانوں کو سیٹلائٹ تصاویرکو سمجھنے میں مدد کرسکتی ہے اور یہاں تک کہ اگر تصویر کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نظام، اس کام میں مکمل تربیت یافتہ ہوں تو کٹائی کے وقت مشین لرننگ مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کا اندازہ بھی لگا سکتی ہے۔
محدود وسائل کے پیش نظر زرعی ٹیکس کے ساتھ ساتھ مالیاتی منتقلی بھی ٹیکنالوجی کے تابع کرنے کی ضرورت ہے۔ کاشت کاروں کی سطح پر جو لوگ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں ان پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے جیسے حکومت کو واجبات کی ادائیگی کے بغیر اپنی جائیداد کو خاندان کے افراد کو فروخت کرنے یا تحفے میں دینے پر پابندی ہونی چاہیے۔
یہ سب تب ہی ممکن ہے جب زمین کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ ٹیکنالوجی بڑے کاشت کاروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے میں مدد کرے گی جو ویسے تو تمام کاشت کاروں کا محض چار فیصد ہیں لیکن تقریباً 40 فیصد زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ اس سے زرعی انکم ٹیکس کی مد میں سیکڑوں ارب روپے کی وصولی ہوگی جبکہ کاشت کاری کے طریقوں کو جدید بنانے میں بھی مدد حاصل ہوگی۔
یہ مضمون 11 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔