• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، 14 دسمبر کو سنایا جائے گا

شائع December 9, 2023
ملزم شاہنواز نے23 ستمبر کو اپنی اہلیہ کو مبینہ طور پر قتل کردیا تھا— فوٹو: طاہر نصیر
ملزم شاہنواز نے23 ستمبر کو اپنی اہلیہ کو مبینہ طور پر قتل کردیا تھا— فوٹو: طاہر نصیر

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی کینیڈین شہری سارہ انعام کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو 14 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

سارہ انعام قتل کیس کی سماعت آج سیشن جج ناصرجاویدرانا کی عدالت میں ہوئی، پراسیکیوٹر رانا حسن عباس، مدعی وکیل راؤ عبدالرحیم اور وکیل ملزمہ نثار اصغر عدالت پیش ہوئے۔

مرکزی ملزم شاہنواز امیر، ان کی والدہ اور شریک ملزمہ ثمینہ شاہ، مقتولہ سارہ کے والد انعام الرحیم اور ملزم کے والد ایاز امیر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود تھیں اور انہوں نے ملزم کی معاونت کی، ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام صرف سارہ انعام کے قتل کی معاونت تک کا ہے مگر 342 کے بیان میں ملزمہ ثمینہ شاہ کی معاونت کا کوئی ثبوت نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سارہ انعام کے قتل سے متعلق ثبوت ثمینہ شاہ کی معاونت کو ثابت نہیں کرتے، پولیس نے جتنے بھی شواہد اکٹھا کیے ہیں ان میں سے کوئی بھی ثبوت ثمینہ شاہ کے خلاف نہیں جاتا، جتنی بھی تصاویر بطور ثبوت سامنے آئیں، ان میں ثمینہ شاہ کی موجودگی نہیں ہے۔

وکیل نثار اصغر کا مزید کہنا تھا کہ ثمینہ شاہ کا ڈی این اے نہیں لیاگیا، جب ثمینہ شاہ کا خون کا نمونہ ہی نہیں لیا گیا تو ڈی این اے رپورٹ سے کیا تعلق؟ انہوں نے کہا کہ پولیس فارنزک ٹیم جائے وقوعہ سے عموماً فنگر پرنٹس حاصل کرتی ہے، پراسیکیوشن نے جائے وقوعہ سے ملنے والے فنگرپرٹس کی رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کروائی، ہم نے پوچھا کہ اگر جائے وقوعہ سے فنگرپرٹس لیے ہیں تو وہ کہاں گئے؟ مگر پراسیکیوشن نے کچھ نہیں بتایا۔

وکیل صفائی نثاراصغر نے کہا کہ مقتولہ کے والد نے بیان دیاکہ سارہ انعام ثمینہ شاہ سے فون پر بات کرتی تھی،صرف ایک بیان کی روشنی میں ثمینہ شاہ کو مجرم تو قرار نہیں دیا جاسکتا، سارہ کے اہل خانہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ بیٹی سے رابطہ نہیں تھا، دوسری طرف تمام انفارمیشن دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ثمینہ شاہ پر الزام لگایاگیاکہ وہ سارہ سے پیسے لیاکرتی تھی،کیا کوئی ثبوت موجود ہے؟ ثمینہ شاہ کےخلاف دیے گئے بیان میں گواہ نے خود کو ہی انفارمیشن کا ذریعہ قرار دیا، پراسیکیوشن نے ایک ہی دن شاہنواز امیر کے والد ایاز امیر اور والدہ ثمینہ شاہ کو مقدمے میں نامزد کردیا۔

وکیل صفائی نثاراصغر نے بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے والد ایاز امیر کو کیس سے ڈسچارج کردیا تھا، کیس کو مبالغہ آمیز بنایا گیا، ثبوت موجود نہیں لیکن صرف مدعی کے بیان کی روشنی میں ثمینہ شاہ کو مقدمے میں نامزد کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سارہ انعام قتل کیس کی واحد خاتون گواہ شکیلہ کوثر نے بھی ثمینہ شاہ کا نام نہیں لیا، ثمینہ شاہ پر جرم ثابت کرنا ہے تو ثبوت پیش کرنے ضروری ہیں۔

وکیل نثاراصغر نے حتمی دلائل مکمل کرتے ہوئے ثمینہ شاہ کو کیس سے بری کرنے کی استدعا کی۔

بعد ازاں سارہ انعام قتل کیس میں پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کیا، ان کا کہنا تھا کہ وکیل صفائی نےکہا سارہ انعام کو صرف ایک انجری ہوئی لیکن حقیقتاً ان کو متعدد انجریاں ہوئیں، طبی رپورٹ کے مطابق تشدد کی وجہ سے سارہ انعام کی موت واقع ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ صرف سر کے زخم کی بات نہیں، سارہ کی لاش پر تو متعدد زخم کے نشانات تھے، سارہ انعام کے سر کے پچھلے حصے پر 7 زخم تھے، شاہنواز امیر ساری رات سارہ انعام پر تشدد کرتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لیب رپورٹس کا انتظار کیا، حتمی مؤقف کے لیے اس کا انتظار کرنا ضروری تھا، ان رپورٹس کے مطابق کوئی زہر وغیرہ نہیں دیا گیا، طبی رپورٹ کے مطابق سارہ انعام کی موت متعدد فریکچرز اور زخموں کے باعث ہوئی،کرائم سین کی رپورٹ کے مطابق ایس ایچ او نے مقتولہ کی شرٹ اتاری، موت کی وجہ حرکت قلب بند ہونا نہیں بلکہ سر پر متعدد زخم تھے۔

پراسیکیوٹررانا احسن نے کہا کہ شاہنواز امیر کا ڈی این اے سارہ انعام کے ساتھ میچ ہوا، یعنی ساتھ رہنے کی بات ثابت ہوگئی، کسی تیسرے شخص کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا یعنی کسی اور پر قتل کا شک نہیں کیا جاسکتا، جائے وقوعہ کی تمام تصاویر موجود ہیں، باتھ ٹب میں پانی موجود تھا، انہوں نے بتایا کہ ڈمبل کے اوپر دو بندوں کے ڈی این اے نمونے موجود ہیں، ملزمان کی موجودگی ثابت ہوچکی ہےاور ان میں سے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 27 ستمبر تک مقتولہ کی شناخت نہیں ہوئی، 28 ستمبر کو والدین آئے اور شناخت ہوئی، جائے وقوعہ کی جو تصاویر ہیں وہ ملزم کے موبائل سے بنائی گئیں، ملزم نے 23 ستمبر کو اپنے والدین کو مسیج کیا کہ مجھے سرنڈر کردینا چاہیے اور تھوڑی دیر بعد ہی پولیس گرفتار کرنے پہنچ جاتی ہے، ملزمان کے مطابق مقتولہ رات کو پہنچی اور ساتھ کھانا کھایا لیکن انہیں پتا ہی نہیں کہ صبح تک وہ باتھ روم میں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گواہ کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ 161 کے بیان کے مطابق ہی عدالت کے روبرو بیان دیں، گواہوں کے بیانات میں بہتری کی ہے مگر غلط بیانی نہیں کی گئی، ہر پوائنٹ ریکارڈ پر موجود ہے اس میں غلط بیانی نہیں کی گئی۔

وکیل نے دلائل دیے کہ مرکزی ملزم کے والد موقع پر موجود نہیں تھے مگر والدہ موجود تھیں۔

اس کے بعد عدالت نے مقتول سارہ انعام کے والد انعام الرحیم کو روسٹرم پر بلایا جنہوں نے کہا کہ میرے تین بچے ہیں اورسارہ میری فیورٹ بچی تھی، ہم اس شادی سے خوش نہیں تھے مگر مجبور ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم کی والدہ کو میری بیٹی کی آواز کیوں نہیں گئی، وہ چیخی ہوگی اور الزام عائد کیا کہ ثمینہ شاہ نے جان بوجھ کر وقت پر پولیس کو اطلاع نہیں دی۔

بعد ازاں مدعی کے وکیل نے عدالت کے سامنے جائے وقوعہ کے تصاویری شواہد پیش کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ والدہ کی موجودگی خود مانتے ہیں، کہتے ہیں کھانا ساتھ کھایا مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ معدے میں کھانے کی موجودگی ہی نہیں ہے، ڈی وی آر کہتے ہیں کہ ملزمان نے خود پاس ورڈ تبدیل کردیا۔

مدعی وکیل نے سوال کیا کہ ملزمان کے مطابق ٹب میں موت ہوئی، تو سوال یہ ہے کہ کمرے سے خون کے نشانات کیسے ملے ؟ ملزم کی نشاندہی پر ساری ریکوری کی گئی اپنی مرضی سے ہر چیز کیسے قبضے میں لی جاسکتی ؟۔

وکیل مدعی راؤ عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ قتل کرنے کے بعد ملزم نے مقتولہ کی تصویر بنائی، گواہان نے عدالت کے سامنے 161 کے بیانات کی تفصیل بتائی جو کرنا چاہیے، گواہان اگر جھوٹ بول بھی دیں تو دستاویزات کبھی جھوٹ نہیں بولتیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کہہ رہی ہے کہ سارہ کو ڈمبل سے مارا گیا اور ملزم کے موبائل سے بنی تصویر جھوٹی نہیں۔

وکیل نے بتایا کہ والد نے کہا کہ مجھے گھر والوں نے اطلاع دی، میں موقع پر موجود نہیں تھا، معاشرے میں اس جیسے واقعات روکنے ہیں، ایلیٹ کلاس کو قتل و غارت گری کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ساتھ ہی مدعی وکیل راؤ عبد الرحیم نے ملزم کو کڑی سزا کی استدعا کردی۔

عدالت نے ملزم شاہ نواز کو روسٹرم پر بلایا اور جج ناصر جاوید رانا نے استفسار کیا کہ شاہ نواز آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟

مرکزی ملزم شاہنواز نے کہا کہ سارہ مجھے اپنے خاندان کے بارے بتاتی رہتی تھی۔

عدالت نے پھر ثمینہ شاہ کو روسٹرم پر بلایا اور انہوں نے کہا کہ میں دوسرے کمرے میں تھی جب مجھے کال آئی کہ امی ادھر آئیں، میں نے خود ایاز صاحب کو کال کی اور کہا کہ یہ واقعہ ہوگیا، ایاز امیر نے مجھے کہا کہ اس کو باندھ کر کمرے میں بند کردیں تاکہ یہ بھاگ نہ جائے۔

اس کے بعد ملزم کے والد ایاز امیر روسٹرم پر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیس میں لکھا گیا کہ نوازش علی پیٹرولنگ پر تھے اور میں نے ان کو خود کال کی۔

ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثاراصغر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سارہ انعام کی ریڈیولوجسٹ رپورٹ پراسیکیوشن کے پاس موجود ہیں، پراسیکیوشن نے ثمینہ شاہ کو بطور گواہ بھی نہیں بلایا، ثمینہ شاہ پر جرح کر سکتےتھے لیکن پراسیکیوشن نے انہیں ملزمہ بنادیا، پراسیکیوشن نے ڈی وی آر کو واقعے کے روز برآمد کیوں نہیں کیا، فنگرپرٹس، موبائل ڈیٹا، ڈی وی آر نہ لینا پراسیکیوشن پر سوال اٹھاتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور سیشن جج ناصر جاوید رانا 14 دسمبر کو کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔

سارہ انعام قتل کیس

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ 22 ستمبر کو رات کسی تنازع پر جوڑے کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، بعد ازاں جمعہ کی صبح دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سر پر ڈمبل مارا۔

تفتیش کے دوران ملزم شاہنواز نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو ڈمبل سے قتل کیا اور اس کی لاش باتھ روم کے باتھ ٹب میں چھپا دی۔

پولیس نے اس کی اطلاع پر لاش کو برآمد کیا، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ متوفی کے سر پر زخم پائے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا پولیس ٹیم نے گھر سے آلہ قتل بھی برآمد کیا تھا جو ایک بیڈ کے نیچے چھپایا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024