• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاکستان کی افرادی قوت مایوس ہوکر کہاں جارہی ہے؟

'معاشی اعدادوشمار جتنے مرضی اچھے دکھا لیں لیکن جب تک سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا اور ملک میں بے روزگاری ختم نہیں ہوگی تب تک جسے جس ملک سے اچھی نوکری ملے گی وہ وہاں چلا جائے گا'۔
شائع December 12, 2023

20 سالہ سید حسیب اللہ فجر کے وقت ہی جھنگ سے اپنے پاسپورٹ پر پروٹیکٹر لگوانے کے لیے لاہور پہنچ گیا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ بیرون ملک نوکری پر جانے سے قبل اسے سرکاری ادارے پروٹیکٹر آف امیگریشن سے اسٹیکر لازمی لگوانا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ممکنہ طور پر اسے ایئرپورٹ پر ایف آئی اے والے آف لوڈ کردیں گے حالانکہ وہ دبئی کی ایک نجی کمپنی میں تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اسے خوف تھا کہ اگر کوئی ایک بھی ضروری دستاویز نامکمل رہا تو ساری محنت پر پانی پِھر سکتا ہے۔

حسیب اللہ دل ہی دل میں خوش بھی تھا کہ یہاں پاکستان میں نوکری کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے بہتر بیرونِ ملک سات سے آٹھ درہم فی گھنٹہ ملنے والی نوکری ہے جس سے کچھ تو حاصل ہوگا۔ پاکستان میں تو نوکری مل نہیں رہی اگر ملتی بھی ہے تو 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ میں گزارا نہیں ہوسکتا۔ حسیب کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر کھڑا محمد عادل میرے ساتھ حسیب کی گفتگو سن رہا تھا تو اس نے بھی فوراً کہا کہ کوئی بھی اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا، پردیس کاٹنا بہت مشکل ہے لیکن اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اسے یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا ہے۔

محمد عادل فیصل آباد کا رہائشی ہے اور وہ بھی 900 ریال کی نوکری کے لیے سعودی عرب جارہا تھا جہاں اسے یہ یقین تھا کہ کمپنی کی جانب سے رہائش، کھانا اور دیگر سہولیات ملنے کے بعد وہ اپنی تنخواہ سے معقول رقم بچا کر اپنے گھر والوں کو بھجوا سکے گا تاکہ ان کا گزر بسر ہوسکے۔ میں نے دونوں نوجوانوں سے کہا کہ جتنے پیسے لگا کر بیرون ملک جارہے ہو اس کا یہیں پر کوئی کاروبار کرلو تو انہوں نے مایوسی سے جواب دیا کہ یہاں کاروبار بھی تو نہیں چل رہا ہے ہر طرف غیر یقینی اور بےچینی کی صورتحال ہے کاروبار پر سرمایہ لگا تو لیں لیکن اس کے تحفظ کی یقین دہانی کوئی نہیں دے سکتا۔ جس تیزی سے ملکی معاشی حالات بگڑ رہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے آنے والے دنوں میں انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔

  اپنا ملک چھوڑ کر کوئی نہیں جانا چاہتا لیکن بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انہیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑتا ہے
اپنا ملک چھوڑ کر کوئی نہیں جانا چاہتا لیکن بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انہیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑتا ہے

بہتر مستقبل اور روزگار کی تلاش میں ایسے سیکڑوں نوجوان گھنٹوں قطار میں لگ کر اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سرکاری اداروں کے باہر اور اندر انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ جب میں نے حالیہ تین برسوں کے دوران بیرون ملک جانے والے افراد سے متعلق اعدادوشمار کا جائزہ لیا تو صورتحال کی سنگینی کا اندارہ ہوا۔

کس صوبے سے کتنے لوگ نوکری کے لیے بیرون ملک گئے ہیں؟

ایسے تو ہر شخص خواہشمند ہے کہ اچھی سے اچھی اور پیسوں والی نوکری مل جائے تاکہ زندگی آسان ہوجائے۔ دستیاب اعدادوشمار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو 2021ء سے اکتوبر 2022ء تک کا ڈیٹا بہت کچھ واضح کرتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے سے پہلے اور اس کے بعد کے برسوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سال 2021ء میں کُل 2 لاکھ 88 ہزار 280 پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک منتقل ہوئے جبکہ سال 2022ء میں یہ تعداد 8 لاکھ 32 ہزار 339 ہوگئی۔ رواں سال یعنی 2023ء کے ماہ اکتوبر تک ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 7 لاکھ 23 ہزار 325 ہے۔ اس طرح ان تین سالوں مجموعی طور پر 18 لاکھ 43 ہزار 944 افراد روزگار کے لیے بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ایک لاکھ 57 ہزار 699 افراد بیرونِ ملک نوکری کے حصول کے لیے ملک چھوڑ گئے لیکن رجیم چینج ہونے کے بعد یہ تعداد تقریباً تین گنا بڑھ گئی۔

  تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانیوں کی بڑی تعداد بیرونِ ملک منتقل ہوئی
تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانیوں کی بڑی تعداد بیرونِ ملک منتقل ہوئی

پنجاب سے 2022ء میں 4 لاکھ 60 ہزار 302 افراد بیرونِ ملک گئے جبکہ رواں سال بھی یہ تعداد تشویش ناک ہے جہاں 4 لاکھ 11 ہزار 661 پاکستانی بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے بارے میں بات کی جائے تو 2021ء میں 21 ہزار 501 افراد جبکہ اگلے ہی سال پاکستان ڈیموکریٹک موؤمنٹ ٰ(پی ڈی ایم)کی حکومت کے دوران 59 ہزار 337 افراد بیرون ملک گئے۔ سال 2023ء کے پہلے دس ماہ کے دوران بھی 60 ہزار 538 افراد نوکری کی غرض سے پاکستان سے باہر منتقل ہوئے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں 2021ء کے دوران 76 ہزار افراد نے دوسرے ممالک کا رخ کیا جبکہ 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2 لاکھ 25 ہزار 272 ہوگئی۔ جبکہ 2023ء میں یہ تعداد اب تک 1 لاکھ 75 ہزار 648 تک پہنچ چکی ہے۔

قدرتی وسائل و معدنیات سے مالا مال بلوچستان کے افراد کی تعداد میں بھی 2021ء کے بعد سے تین گنا سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2021ء میں یہ تعداد 2 ہزار 473 سے بڑھ کر 2023ء میں 8 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقہ جات اور آزاد جموں و کشمیر سے بیرون ملک جانے والے لوگوں کی تعداد میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

کس قابلیت کے حامل افراد کون سے ملک گئے ہیں؟

قابلیت کے اعتبار سے لوگوں کی انتہائی پڑھے لکھے، انتہائی ہنرمند، ہنرمند، نیم ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کے طور پر درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو ایسے افراد کے بارے میں بتاتا ہوں جو انتہائی پڑھے لکھے ہیں اور انہوں نے پاکستان کے بجائے بیرون ملک نوکری کو ترجیح دی۔ سال 2021ء میں ایسے افراد کی تعداد 7 ہزار 396 تھی جو 2022ء میں بڑھ کر 17 ہزار 976 تک جا پہنچی اور یہ تعداد 2023ء میں مزید بڑھ کر 19 ہزار 216 ہوچکی ہے۔

  پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہائی پڑھے لکھے طبقے کے لوگ بیرونِ ملک نوکری کو ترجیح دے رہے ہیں
پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہائی پڑھے لکھے طبقے کے لوگ بیرونِ ملک نوکری کو ترجیح دے رہے ہیں

ہنر مند افراد کی بات کریں تو 2021ء میں ایک لاکھ 31 ہزار 348 افراد پاکستان سے باہر گئے جبکہ 2021ء میں یہ تعداد 3 لاکھ 47 ہزار 733 ہوگئی اور رواں برس کے پہلے 10 ماہ کے دوران یہ تعداد 2 لاکھ 65 ہزار 645 تک پہنچ چکی ہے۔ نیم ہنر مند افراد کے بارے میں دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں یہ تعداد 28 ہزار 384 تھی جو پی ڈی ایم حکوت کے پہلے سال میں بڑھ کر 84 ہزار 660 تک پہنچ گئی اور 2023ء میں ان افراد کی تعداد 74 ہزار 502 ہوچکی ہے۔

ایسے افراد جن کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے لیکن روزگار کی تلاش میں وہ بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے، 2021ء کے دوران ان کی تعداد ایک لاکھ 14 ہزار 589 تھی، 2022ء کے دوران یہ تعداد 3 لاکھ 61 ہزار سے زائد ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2023ء میں اب تک یہ تعداد 3 لاکھ 24 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

وہ ممالک جہاں گزشتہ تین برسوں کے دوران سب سے زیادہ پاکستانی نوکری کے لیے منتقل ہوئے ہیں ان میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے۔ یہاں 2021ء میں ایک لاکھ 55 ہزار 777 افراد منتقل ہوئے جبکہ رجیم چینج کے بعد یہ تعداد 5 لاکھ 14 ہزار 909 تک جاپہنچی لیکن رواں برس میں یہ تعداد پھر کم ہوئی ہے اور اب تک 3 لاکھ 47 ہزار 763 افراد نے سعودی عرب کا رخ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں نوکری کے لیے جانے والے افراد کی تعداد 2021ء میں 27 ہزار سے زائد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ 2022ء میں یہ تعداد ایک لاکھ 28 ہزار 477 تک جاپہنچی اور 2023ء میں یہ تعداد 2 لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے۔

  پاکستان سے باہر جانے والے سب سے زیادہ لوگ سعودی عرب منتقل ہوئے ہیں
پاکستان سے باہر جانے والے سب سے زیادہ لوگ سعودی عرب منتقل ہوئے ہیں

گزشتہ تین برس کے دوران ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد نے روزگار کی تلاش میں اومان کا رخ کیا۔ ایک لاکھ 45 ہزار سے زائد افراد نوکری کے حصول کے لیے قطر جاچکے ہیں۔ 2022ء میں 6 ہزار 175 افراد ملائیشیا گئے جبکہ 2023ء میں یہ تعداد بڑھ کر 19 ہزار 523 پہنچ چکی ہے۔ برطانیہ میں نوکری کے لیے جانے والے افراد کی تعداد 2021ء میں ایک ہزار 34 ریکارڈ کی گئی، 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2 ہزار 922 جبکہ 2023ء میں یہ تعداد 11 ہزار 763 تک پہنچ گئی ہے۔

اسی طرح امریکا منتقل ہونے والوں کے بارے میں دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں 551 افراد، 2022ء میں 801 جبکہ 2023ء میں 747 افراد امریکا منتقل ہوئے۔ اس طرح دیگر ممالک بھی ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بہتر روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔

پاکستانیوں کو کس شعبے میں زیادہ نوکریاں مل رہی ہیں؟

پاکستان میں اس وقت مختلف کمپنیاں آن لائن ٹیکسی سروس چلا رہی ہیں لیکن پاکستان کے شہری بیرون ملک جاکر بطور ڈرائیور نوکری کرنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں 87 ہزار 884 افراد ڈرائیور کی نوکری کے لیے ملک سے باہر گئے، یہ تعداد 2022ء میں بڑھ کر 2 لاکھ 32 ہزار 120 تک پہنچ گئی جبکہ 2023ء میں ایک لاکھ 62 ہزار سے زائد افراد اب تک ڈرائیور کی نوکری کے لیے بیرونِ ملک جاچکے ہیں۔ اسی طرح مزدور طبقے کی بات کی جائے تو مزدوری کی غرض سے 2021ء میں ایک لاکھ 13 ہزار 851 افراد ملک سے باہر گئے، 2022ء میں 3 لاکھ 57 ہزار 995 افراد نے مزدوری کے لیے بیرون ملک جانے کو ترجیح دی ہے جبکہ 2023ء میں 3 لاکھ 17 ہزار 779 مزدور پاکستان سے جاچکے ہیں۔

  پاکستانی ملک سے باہر جانے کے لیے ڈرائیور کی نوکری کو بھی ترجیح دے رہے ہیں
پاکستانی ملک سے باہر جانے کے لیے ڈرائیور کی نوکری کو بھی ترجیح دے رہے ہیں

اسی طرح مستری، بڑھئی اور تعمیراتی شعبے سے منسلک لاکھوں افراد گزشتہ تین برسوں میں ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ اگر بات کریں پڑھے لکھے افراد کی تو ان میں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ 1691 پاکستانی 2021ء میں بیرون ملک نوکری کے لیے منتقل ہوئے، 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2 ہزار 826 ہوگئی جبکہ 2023ء میں یہ اعداد 2 ہزار 883 ہوچکے ہیں۔ انجینئرز کی بات کی جائے تو 2021ء میں 3 ہزار 526، 2022ء میں 6 ہزار 93 جبکہ 2023ء میں 7 ہزار 237 انجینئرز نے پاکستان سے باہر نوکری کرنے کو ترجیح دی۔ اسی طرح 2021ء میں اکاؤنٹنٹ کے طور پر 2 ہزار 190 افراد بیرونِ ملک گئے، 2022ء میں 7 ہزار 197 جبکہ سال 2023ء میں 6 ہزار 497 اکاؤنٹنٹ ملک سے باہر جاچکے ہیں۔

برین ڈرین کو روکنے کا حل کیا ہے؟

  جب تک سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا، لوگوں کو جہاں اچھی نوکری ملے گی وہ وہاں چلے جائیں گے
جب تک سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا، لوگوں کو جہاں اچھی نوکری ملے گی وہ وہاں چلے جائیں گے

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا ماننا ہے کہ معاشی اعدادوشمار جتنے مرضی اچھے دکھالیں، اسٹاک مارکیٹ بے شک 60 ہزار کی سطح عبور کرجائے لیکن جب تک سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا اور ملک میں بے روزگاری ختم نہیں ہوگی تب تک جسے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنا ہے اسے جہاں اچھی نوکری ملے گی وہ وہاں چلا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان میں ماہر افراد کی ضرورت ہے لیکن وہ دستیاب نہیں ہیں۔ حکمران جتنے مرضی دعوے کرلیں لیکن جب تک لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوگا کہ ملک سیاسی طور پر مستحکم ہوچکا ہے، اس وقت تک حالات ایسے ہی رہیں گے اور ہوسکتا ہے مستقبل میں مزید بگاڑ پیدا ہو۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے بقول اس کا حل ایک مضبوط سیاسی حکومت کا قیام اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا مثبت پہلو قلیل مدتی لگ رہا ہے لہذا عوام کے دلوں سے ناامیدی ختم کرکے ہی کچھ اچھا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

علی وقار

لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔