3 سال قبل کراچی میں جیو ٹی وی سے وابستہ ایک سینیئر صحافی کو اغوا کر لیا گیا۔ صحافی کا نام علی عمران سید تھا۔ وہ دفتر سے گھر کے لیے نکلے اور گھر کے قریب ہی تھے کہ انہیں اغوا کرلیا گیا اور اغوا کاروں نے انہیں 22 گھنٹے اپنی تحویل میں رکھا، پھر انہیں ان کی والدہ کے گھر پہنچا دیا گیا۔
انہیں اپنے اغوا کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ علی عمران سید نے ہمیں فون پر بتایا کہ 23 اکتوبر 2020ء جمعے کی شام تھی، گھر کے قریب ایک بیکری سے انہیں کسی طاقتور ادارے کے اہلکاروں نے اغوا کرلیا۔ بنیادی مسئلہ ایک ویڈیو کا تھا۔ اغوا کار انہیں زدو کوب کرتے ہوئے ان کے کام کے حوالے سے سوالات کرتے رہے۔ علی ایک ’ایکسکلیوسیو فوٹیج‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس میں واضح طور پر ایسے شواہد موجود تھے جو کچھ اداروں کے لیے بہت شرمندگی کا باعث تھے۔
علی سمجھتے ہیں کہ یہی وجہ تھی کہ انہیں اغوا کرکے دباؤ میں لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا کا زمانہ تھا اس لیے ہر طرف سے آواز اٹھائی گئی، جس کی وجہ سے اغوا کار دباؤ میں آئے اور 22 گھنٹے کے اندر ان لوگوں کو مجھے رہا کرنا پڑا۔ اس میں انٹرنیشنل میڈیا اور ملکی و غیر ملکی صحافی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل تھیں۔ ہر طرف سے آوازیں اٹھیں اور ایک شور مچ گیا تھا۔
صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا بل کیا کہتا ہے؟
2021ء میں سابق وفاقی وزیر شریں مزاری نے ماہرین قانون اور دیگر صحافی تنظیموں کی مشاورت سے جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروٹیکشن بل پاس کروایا۔ مئی 2021ء میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اسی طرح کے ایک بل کو پیش کیا گیا اور 4 اگست 2021ء میں اسے قانونی شکل دے دی گئی جبکہ اس قومی بل کو دسمبر 2021ء میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کرکے باقاعدہ قانون کا حصہ بنایا۔