• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتیجے میں 9مئی کے واقعات ہوئے، سپریم کورٹ

شائع November 17, 2023
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 2019 کے فیصلے میں مستقبل کے حوالے سے خبردار کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 2019 کے فیصلے میں مستقبل کے حوالے سے خبردار کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تقریباً پانچ سال گزرنے کے باوجود حکومتوں نے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جس کے نتیجے میں قوم کو 9مئی کے واقعات کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے 15 نومبر کو فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس سماعت کی گئی تھی جس کا تحریری حکم گزشتہ روز جاری کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھانے سے برسوں قبل 2019 میں لکھے گئے فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے زیر کمان ان اہلکاروں کو سزائیں دیں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔

مذکورہ فیصلے میں وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کی نگرانی اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

20 روزہ دھرنے کے باعث جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی ریمارکس جاری کیے گئے تھے۔

بعد ازاں وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، پی ٹی آئی، پیمرا، الیکشن کمیشن آف پاکستان، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور اعجاز الحق کی جانب سے فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

15 نومبر کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ گزشتہ روز جاری کیا گیا جسے چیف جسٹس عیسیٰ نے تحریر کیا اور اس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2019 کے فیصلے میں مستقبل کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً پانچ سال قبل ہم نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، انہیں آنے والی حکومتوں نے نظر انداز کر دیا تھا، نظرثانی کی درخواستیں اور درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور انہیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے فیصلے پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی ماضی میں کیے گئے تشدد کے لیے کسی کو جوابدہ ٹھہرایا گیا، یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ تشدد کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک جائز ذریعہ سمجھا جاتا رہا۔

تحریری حکم میں کہا گیا کہ آزاد عدلیہ کے ساتھ ساتھ ایک جامع اور رواداری پر مبنی پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے متاثرین کو انصاف فراہم نہ کر کے نظر انداز کیا گیا، قوم کو اس کے نتائج بھگتنا پڑے، جیسا کہ 9 مئی کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ نظرثانی کی درخواستیں 2019 کے اوائل میں دائر کی گئی تھیں لیکن کئی سالوں تک ان پر فیصلہ نہیں کیا گیا اور ان پٹیشن اور درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے لیے ہیرا پھیری کی گئی۔

سپریم کورٹ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ ثابت کرے گی کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، سچ اداروں کو مضبوط بناتا ہے اور پاکستان کے لوگ کسی بھی طور اس سے کم کے مستحق نہیں ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ غلط کام کو نظرانداز کرنا یا اس کا یکسر انکار کرنا خاص کر جب حقائق اس کے برعکس نشاندہی کرتے ہوں تو یہ جھوٹ کی زندگی گزارنے کے مترادف ہے، یہ عوام کے مفاد کے بھی خلاف ہے جن کے ٹیکسوں سے تمام سرکاری اداروں کو فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور سرکاری اداروں پر اعتماد کی کمی سے آمریت کو فروغ اور جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ افراد جن اداروں میں کام کرتے ہیں، اگر ان کو ہی داغدار کرنے لگیں تو وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں، ادارے کے وقار کو نقصان پہنچا کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں۔

حکم نامے میں فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے پر بھی غور کیا گیا تاہم اس حوالے سے مشاہدہ کیا گیا کہ جب 2019 کا فیصلہ جاری کیا گیا تھا تو جو لوگ حکومت میں تھے وہ اب اقتدار میں نہیں ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی نوعیت بھی تبدیل ہو چکی تھی۔

حکم میں کہا گیا کہ اس وجہ سے موجودہ حکمرانوں اور ذمے داران کو ان کے پیشروؤں کے اعمال کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا، بالخصوص ایسی صورت میں جب انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ وفاقی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا اور اسے اپنا کام مکمل کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا تھا لہٰذا امید ہے کہ کمیشن مقررہ وقت میں یہ عمل مکمل کر لے گا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن اگلی تاریخ کا انتظار کیے بغیر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم میں کہا کہ اگلی سماعت 22 جنوری کو ہوگی۔

فیض آباد دھرنا

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024