• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm

انڈسٹری میں کچھ لوگ ایسے آئے جنہوں نے فحش و عریاں فلمیں بنائیں، مصطفیٰ قریشی

شائع November 15, 2023
— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

ماضی کے مقبول اداکار اور فلموں کے معروف ولن مصطفیٰ قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں کچھ لوگ ایسے بھی آئے جنہوں نے معیاری فلموں کے بجائے فحاشی اور عریانیت پر مبنی فلمیں بنائیں اور یہ عمل انڈسٹری کے زوال کا سبب بنا۔

مصطفیٰ قریشی حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ریڈیو پاکستان سے کیریئر کا آغاز کیا، بعد ازاں انہوں نے کم عمری میں ہی فلموں میں اداکاری شروع کردی۔

ان کی کامیاب فلم ’لاکھوں میں ایک‘ تھی جو کہ 1967 میں ریلیز ہوئی، تاہم وہ اس سے قبل ہی فلموں کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے۔

مصطفیٰ قریشی نے پنجابی، سندھی اور اردو سمیت دیگر زبانوں کی 500 سے زائد فلموں میں کام کیا اور انہیں زیادہ تر شہرت پنجابی فلموں میں ولن کے کردار ادا کرنے سے ملی۔

مصطفیٰ قریشی کو سب سے زیادہ شہرت 1979 کی بلاک بسٹر پنجابی فلم ’مولا جٹ‘ میں نوری نتھ کا کردار ادا کرنے سے ملی جو کہ ایک ولن کا کردار تھا اور انہوں نے مرحوم سلطان راہی کے مخالف کردار ادا کیا۔

زائد العمری کے باعث مصطفیٰ قریشی گزشتہ کئی سال سے اداکاری سے دور ہیں، تاہم وہ ٹی وی شوز، ایوارڈز اور دیگر تقریبات میں دکھائی دیتے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے سکھر میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی، جہاں انہوں نے نشریاتی ادارے ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کو انٹرویو بھی دیا۔

مصطفیٰ قریشی نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں پاکستانی فلم انڈسٹری عروج پر تھی، اب تو کچھ ہے ہی نہیں، اب نہ بادشاہ ہے اور نہ ہی تاج ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی جوڑی سب سے زیادہ مرحوم سلطان راہی کے ساتھ پسند کی جاتی تھی اور دونوں نے 26 سال تک ایک ساتھ کام کیا۔

ان کے مطابق سلطان راہی کے انتقال کےبعد ان جیسا کوئی اداکار پیدا ہی نہیں ہوا اور ان کی جوڑی بھی ٹوٹ گئی۔

سینیئر اداکار کا کہنا تھا کہ ماضی میں سال میں 200 سے 250 فلمیں پاکستان میں بنتی تھیں، اب ایسا نہیں ہوتا، ماضی میں حکومت کروڑوں روپے کا ٹیکس فلم انڈسٹری سے کماتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود انکم ٹیکس کی مد میں حکومت کو لاکھوں روپے دیے لیکن افسوس کہ سینما انڈسٹری میں بعد میں آنے والے افراد نے مارکیٹ کو نہیں سمجھا اور انڈسٹری ختم ہوگئی۔

مصطفیٰ قریشی کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے سینما اجڑ کر منہدم ہونے لگے، سینماؤں کی جگہ بڑے شاپنگ پلازہ بن گئے۔

سینیئر اداکار نے شکوہ کیا کہ ماضی کی مقبول فلم انڈسٹری میں بعد میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے جنہوں نے معیاری فلمیں نہیں بنائیں، انہوں نے فحاشی اور عریانیت پر مبنی فلمیں بنائیں، جس سے انڈسٹری تباہ ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک بھارت نے سینما اور فلم سے فائدہ اٹھایا اور وہاں کی معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا۔

اگرچہ مصطفیٰ قریشی نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں فحش مواد پر مبنی فلمیں بناکر انڈسٹری کو نقصان پہنچایا گیا لیکن انہوں نے کسی فلم یا ہدایت کار کا نام نہیں لیا۔

پاکستانی سینما کی تاریخ میں عام طور پر 1990 سے 2005 کے درمیان بننے والی درجنوں فلموں کو فلمی مبصرین غیر معیاری، بولڈ اور فحش مواد پر مبنی فلمیں قرار دیتے رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2024
کارٹون : 24 دسمبر 2024