کرکٹ ورلڈکپ 2023ء: پاکستان نے کیا کھویا کیا پایا؟
13ویں ورلڈکپ میں پاکستان کا سفر کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں عین اس دن اختتام پذیر ہوا جب ایک جانب پورا بھارت روشنیوں کا تہوار دیوالی منارہا تھا، ایسے میں پاکستان کے کیمپ میں اداسی، مایوسی اور اندھیرا تھا۔
بھارت کے گوشے گوشے میں روشن ہونے والے چراغ بھی پاکستان کی تقدیر نہ بدل سکے اور امیدوں، مرادوں اور دعووں سے شروع ہونے والی ورلڈکپ کی مہم بجھے بجھے انداز میں جس طرح آگے بڑھی تھی وہ قدرت کی مدد کے باوجود کسی مہم جو ہونے والی کیفیت کی آئینہ دار نہ بن سکی۔
آخری میچ ایسی ٹیم سے تھا جو دفاعی چیمپیئن تھی لیکن رواں ورلڈکپ میں سب سے بدترین کارکردگی دکھا رہی تھی۔ اگر پاکستان کے لیے یہ میچ سیمی فائنل کی مدہم سی امید تھا تو انگلینڈ کے لیے یہ چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کی ضمانت۔ اس میچ میں شکست سے وہ چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کا موقع گنوا سکتے تھے۔
پاکستان کی توقعات تو ناممکنات میں شامل تھیں لیکن انگلینڈ کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا تھا اور اس نے میچ جیتنے کے ساتھ ساتھ وہ سب حاصل بھی کرلیا۔
پاکستان قومی ٹیم بے بسی اور بے کسی کا نمونہ بنی ہوئی تھی جبکہ انگلینڈ جوش اور ولولے سے لبریز نظر آرہی تھی۔ روایت کے مطابق پاکستانی باؤلنگ نے اس بلے باز کو بھی فارم میں واپس لے آئی جو مسلسل ناکام تھا۔ جونی بیرسٹو آخری میچ میں نصف سنچری کرگئے، یوں انہیں فارم بھی ملی اور جیت بھی۔ جبکہ پاکستانی بلے باز وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔
پاکستان قومی ٹیم نے کیا کھویا؟
ورلڈکپ سے قبل پاکستان ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں سرِفہرست ہونے کی وجہ سے ہر پنڈت کے اشلوک میں عالمی چیمپیئن بننے کی دوڑ میں فیورٹ تصور کی جارہی تھی اور ہر کوئی اسے احمدآباد میں عالمی کپ کے فائنل میں دیکھ رہا تھا۔ سب کو بابراعظم سے سنچریوں اور شاہین شاہ آفریدی سے خطرناک باؤلنگ کی توقع تھی لیکن پاکستان ٹیم نے اپنی تمام شان وشوکت کھودی۔
سب سے بڑھ کر پاکستان نے شائقین کا اعتماد کھودیا ہے۔ وہ شائقین جو بابر اور رضوان کو عظیم بلے باز کے روپ میں دیکھ رہے تھے وہ مایوس ہوچکے ہیں۔ رضوان تو ایک سنچری کرگئے لیکن بابر یکسر ناکام ہوگئے۔ تین نصف سنچریاں ان کے شایان شان نہیں تھیں۔ وہ کمزور حریفوں کے خلاف بھی کچھ نہ کرسکے۔
اگر پہلی ناکامی دیکھی جائے تو بیٹنگ بالکل ناکام ہوگئی۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ کے علاوہ اوپنرز کسی بھی میچ میں بڑا آغاز نہیں دے پائے۔ عبداللہ شفیق ایک سنچری کرنے کے علاوہ ناکام رہے جبکہ امام الحق کی بیٹنگ نے پاکستان کو بہت زک پہنچائی۔ وہ خود رنز بھی نہ کرسکے اور رفاقت بھی نہ نبھا سکے۔
فخر زمان نے اس وقت اپنی بیٹنگ کے کچھ جوہر دکھائے جب پانی سر پر آچکا تھا۔ وہ طوفانی بیٹنگ سے نیوزی لینڈ کے خلاف حسابی فتح تو دلا گئے لیکن انگلینڈ کے خلاف ناکام ہوگئے۔ شائقین کو گلہ ہے کہ فخر زمان کو پہلے میچ کے بعد ڈراپ کیوں کیا گیا لیکن اگر وہ تمام میچ کھیلتے تب بھی ایک دو اننگز ہی اچھی ہوتی۔ فخر زمان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ شاٹ سیلیکشن نہیں جانتے اور اکثر غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوجاتے ہیں ۔
سعود شکیل نے بھی تمام میچز کھیلے لیکن وہ کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے وہ کسی بھی طرح ماڈرن کرکٹ میں فٹ نہیں ہوتے ہیں۔
پاکستان کی باقی بیٹنگ لائن محض خانہ پری کا اشتہار بنی رہی۔ افتخار احمد، شاداب خان، محمد نواز اور سلمان علی آغا اپنے پیشروؤں کی طرح وقت پڑنے پر مردہ گھوڑے ہی ثابت ہوئے۔ افتخار احمد نے سخت مایوس کیا جبکہ سلمان آغا کو 3 میچز کھیلنے کا موقع ملا لیکن ان کی کاکردگی متاثر کُن نہ رہی۔
باؤلنگ کی ناکامی
پاکستان ٹیم کی باؤلنگ بھارت اس شہرت کے ساتھ پہنچی تھی کہ اس کے پاس دنیا کے سب سے بہترین فاسٹ باؤلرز ہیں لیکن یہ باؤلنگ بہت مہنگی اور بے ضرر ثابت ہوئی۔
شاہین شاہ آفریدی نے 18 اور حارث رؤف نے 16 وکٹیں لیں لیکن دونوں ہی باؤلرز کو زیادہ تر وکٹیں اس وقت ملی ہیں جب حریف ٹیم کے بلے باز تیز رنز کی خاطر جارحانہ اندازمیں کھیل رہے تھے اس لیے دونوں کی باؤلنگ کہیں بھی مؤثر دکھائی نہیں دی۔ حارث رؤف نے 533 رنز دے کر ورلڈکپ کے سب سے مہنگے باؤلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی باؤلنگ ہر میچ میں پاکستان کو شکست کی طرف لے گئی جبکہ شاہین شاہ کو درست وقت پر وکٹ نہیں مل سکی۔
حارث رؤف سب سے مہنگے اور غیر معیاری بولر رہے۔ وہ ایک جیسی باؤلنگ کرنے کے باعث غیر موثر ہوچکے ہیں۔
شاہین شاہ آفریدی نے 18 وکٹیں تو لیں لیکن میچ ونر نہ بن سکے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف آخری اوورز میں ان کی بے مقصد آف اسٹمپ سے باہر باؤلنگ نے میچ کی شکست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کی ناکامی کی مثال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے آخری ٹیل اینڈرز کو وہ 10 اوورز میں آؤٹ نہ کرسکے اور میچ ہار گئے۔
دوسری ٹیموں کے فاسٹ باؤلرز خاص طور پر بھارتی فاسٹ باؤلرز نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی لیکن پاکستانی فاسٹ باؤلرز یکسر ناکام رہے۔
اسپن باؤلنگ کا شعبہ سب سے بدترین رہا
بھارت کی پچز اسپن باؤلنگ کے لیے جنت سے کم نہیں تھی لیکن پاکستانی اسپنرز وہاں وکٹوں کے لیے ترس گئے۔ آسٹریلیا کا دوسرے درجے کا اسپنر ایڈم زمپا تو 22 وکٹ لے گیا لیکن پاکستان کے سارے اسپنرز مل کر بھی صرف 16 وکٹیں ہی لے پائے۔ پاکستان کی اسپن باؤلنگ اپنی کارکردگی میں صرف سری لنکا سے بہتر رہی ورنہ ورلڈ کپ کی باقی تمام ٹیموں نے بہتر اسپن باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان آخری دن تک فیصلہ نہیں کرسکا کہ اسامہ میر اسپنر ہے یا شاداب خان۔ دونوں ہی بہرحال ناکام بھی رہے اور ٹیم پر بوجھ بھی ثابت ہوئے۔ شاداب خان نے 6 میچوں میں 2 اور اسامہ نے 4 میچوں میں 4 وکٹیں لیں۔ شاداب خان کی سیلیکشن پر بہت زیادہ تنقید ہوئی تھی لیکن انہیں کپتان بابراعظم کے اصرار پر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ شاداب خان کی باؤلنگ میں گزشتہ ایک سال سے تنزلی آرہی تھی لیکن بابر نہ مانے۔ دوسری جانب اسامہ میر بھی مکمل ناکام رہے۔ وہ حریف ٹیموں کے خلاف بغیر کسی حکمت عملی کے باؤلنگ کرنے آئے جس سے انہیں کھیلنا بلے بازوں کے لیے آسان ہوگیا۔
محمد نواز اور افتخار احمد جزوقتی باؤلرز رہے اور اپنی بے مقصد باؤلنگ سے کچھ نہ کرسکے۔ محمد نواز سے بہت زیادہ توقعات تھیں لیکن وہ اپنا انتخاب ثابت نہ کرسکے۔ وہ بیٹنگ میں بھی کچھ نہ کرسکے جبکہ بابراعظم انہیں اپنا ’میچ ونر‘ کہتے ہیں۔
کیا کچھ مثبت بھی ہوا؟
اگر اس ورلڈکپ میں ناکامیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستان ٹیم کے لیے کچھ مثبت ہوا تو وہ ’اسٹارڈم‘ کی قلعی کھلنا ہے۔ کمزور ٹیموں کے خلاف رنز کے انبار لگانے والے مہان بلے بازوں کو ورلڈکپ میں ٹکر کے باؤلر ملے تو سب کچھ عیاں ہوگیا۔ اس سے اتنا تو پتا چل گیا کہ اس ٹیم میں کچھ تبدیلیاں انتہائی ضروری ہیں۔ اگرچہ ایشیاکپ میں ناکام ہونے کے بعد ان سب کو تبدیل کردینا چاہیے تھا جو ٹیم پر بوجھ ہیں۔
پاکستان ٹیم کی فیلڈنگ کسی حد تک اچھی رہی اور کیچ ڈراپ کرنے کا تناسب سب سے کم رہا۔ فیلڈنگ نے روایت کے خلاف اچھا پرفارم کیا۔
کپتانی کے مسائل
بابراعظم کی کپتانی نے بہت زیادہ مایوس کیا۔ ان پر دوستیاں نبھانے کے الزامات لگتے رہے وہ اہم مواقع پر درست فیصلے نہ کرسکے۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں وہ رنز کی رفتار روک نہ سکے جبکہ جنوبی افریقہ کے خلاف وہ اپنے باؤلرز سے آخری اوورز میں موثر باؤلنگ نہ کرواسکے۔ ایک موقع پر جبکہ فیلڈ جارحانہ لینے کی ضرورت تھی تب وہ دفاعی فیلڈ ترتیب دیتے رہے جس سے ٹیل اینڈرز مہاراج اور شمسی پر دباؤ نہ بڑھ سکا۔ پاکستان کو افغانستان اور جنوبی افریقہ سے میچ جیتنا چاہیے تھا لیکن وہ جیت نہ سکے۔ اگر ان کی کپتانی کے حوالے سے ایک جملے میں بات کی جائے تو وہ چلے ہوئے کارتوس آزماتے رہے جبکہ دوسرے کپتانوں نے جارحانہ حکمت عملی سے میچ جیتے۔
بابراعظم خوداعتمادی کا بھی شکار رہے اور ٹیم کی بدترین کارکردگی کا دفاع کرتے رہے جبکہ انہیں غلط سلیکشن پر بات کرنا چاہیے تھی کہ کیا یہ ٹیم ان کی منتخب کردہ تھی یا پھر ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کی؟
اس وقت شاید بابراعظم کپتانی کے بوجھ سے آزاد ہونا چاہیں گے۔ سرفراز احمد اور شان مسعود ٹیم کے لیے سب سے بہتر چوائس ہیں دونوں نے اس سیزن میں بہت عمدہ بیٹنگ کی ہے اور کراچی نے سرفراز احمد کی قیادت میں قائداعظم ٹرافی جیتی ہے۔ آسٹریلیا کے مشکل ترین دورے پر دونوں بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ شان مسعود یارکشائر کی کپتانی کررہے ہیں اور کاؤنٹی سیزن میں اچھی بیٹنگ کرکے آئے ہیں۔ وہ ایک جارحانہ کپتان سمجھے جاتے ہیں اور اپنی ماڈرن طرز کی بیٹنگ سے ان کے مائنڈسیٹ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
قومی ٹیم میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں؟
اگر پاکستان کے تمام 9 میچوں کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان جو پانچ میچز ہارا ان میں افغانستان، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا سے شکست غیر معیاری باؤلنگ کے باعث ہوئی۔ حارث رؤف، حسن علی، شاداب خان اور اسامہ میر نے غیر معیاری باؤلنگ کی۔ ان چاروں کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنا ضروری ہے۔
بھارت اور انگلینڈ کے خلاف ہماری بیٹنگ بہت خراب رہی اور پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مڈل آرڈر کی ناکامی رہا۔ رضوان صرف دو اچھی اننگز کھیل سکے جبکہ کپتان بابراعظم بھی متاثر کُن کھیل پیش نہ کرپائے۔ سعود شکیل، افتخار احمد، شاداب خان اور محمد نواز تو بالکل ہی ناکام رہے۔ پاکستان کو ان چاروں کھلاڑیوں کی جگہ نئے کھلاڑیوں کو لانا ہوگا۔ اوپنرز میں امام الحق یکسر ناکام رہے، انہیں ڈراپ کرنا ضروری ہے۔ ان کی جگہ صائم ایوب، علی زریاب اور شان مسعود تیار ہیں۔ جبکہ مڈل آرڈر کے لیے اسد شفیق نے اس ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ بیٹنگ کی ہے اور وہ ٹیم میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کے دورے میں ان کا تجربہ کام آسکتا ہے کیونکہ اس سے قبل وہ برسبین کی تیز ترین پچ پر سنچری کرچکے ہیں۔
کیا بورڈ کا احتساب ہوگا؟
پاکستان ٹیم کی شکستوں میں پی سی بی کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور بیانات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چیئرمین ذکا اشرف کرکٹ سے نابلد ہونے کے باعث بچکانہ بیانات دیتے رہتے ہیں جبکہ مشیروں کے غلط مشوروں نے کپتان بابراعظم سے تعلقات بھی کشیدہ کردیے ہیں۔ بورڈ کے سی او او سلمان نصیر نے بابراعظم کے واٹس ایپ پیغامات کو مشتہر کرکے بےاعتمادی کو فروغ دیا۔ بورڈ کے بے وقت بیانات اور تبدیلیوں نے پاکستان کرکٹ کا مذاق بنادیا۔ بھارتی میڈیا نے پی سی بی کو میوزیکل چیئر سے تشبیہ دے کر مذاق اڑایا تو سابق کھلاڑیوں نے اسے نااہل کے خطاب دیے۔
بورڈ نے صحافیوں کی ایکریڈیشن میں جس جانبداری اور اقربا پروری کا مظاہرہ کیا اس پر بلوچستان کے وزیر اطلاعات کو پریس کانفرنس کرنا پڑی لیکن بورڈ نے اسے ہوا میں اڑادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پی سی بی ہٹ دھرمی پر آمادہ ہے۔
ورلڈکپ میں پاکستان کا سفر تو ختم ہوچکا لیکن ابھی کرکٹ ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان کرکٹ میں اب سخت احتساب کی ضرورت ہے۔ کوچنگ اسٹاف نے بھاری بھرکم معاوضے کے باوجود کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ ڈائریکٹر کرکٹ مکی آرتھر کی غلط سوچ اور سیلیکشن میں بےنقاب ہونے والی غلطیوں نے ٹیم کو اس مقام پر پہنچادیا ہے۔
اگر اس عبرت ناک شکست کے محرک، عوامل اور بورڈ عہدے داران کا احتساب نہ ہوا تو شکستوں کا سلسلہ بڑھتا رہے گا اور مستحق باصلاحیت کھلاڑی اسی طرح اندھیروں کی نذر ہوتے رہیں گے، وزیراعظم پاکستان پی سی بی کے سرپرست ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کو کٹہرے میں لائیں جنہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کرکٹ کا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔