نئے نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا تقرر کیسے کیا جائے؟ اعظم خان کی وفات کے بعد نئی بحث چھڑ گئی
خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کی موت کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ صوبے کے نئے نگران چیف ایگزیکٹو کا تقرر کیسے کیا جائے گا جب کہ اس حوالے سے کوئی واضح آئینی دفعات موجود نہیں ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آرٹیکل 224 اور 224-اے کے تحت نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کے لیے طریقہ کار موجود ہے لیکن یہ دفعات کسی عہدیدار کی موت یا استعفے کی صورت میں اختیار کیے جانے والے طریقہ کار کے بارے میں خاموش ہیں۔
اسی طرح الیکشنز ایکٹ 2017 نگران حکومت کے فنکشن سے متعلق ہے لیکن موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اس میں کوئی شق نہیں ہے۔
کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نئے تقرر کے لیے وہی طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے جو آرٹیکل 224 اور آرٹیکل 224- اے میں درج ہے، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
کنور دلشاد کے مطابق اسمبلیاں اب موجود نہیں ہیں، اس لیے سینیٹ ایسی ہنگامی صورتحال میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
کنور دلشاد نے صحافیوں سے گفتگو کرتے بتایا کہ اگر سینیٹ کسی نام پر متفق نہیں ہوتی تو معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا، اگر سینیٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کسی نام پر متفق نہ ہوئے تو معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوایا جائے گا۔
صورتحال اس لیے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ محمود خان جو نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان کے تقرر کے لیے ہونے والی آئینی مشاورت میں شامل تھے، پہلے ہی سابق حکمران جماعت کو چھوڑ چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس کی نظیر نہیں ملتی، نگران وزیر اعلیٰ کا عہدہ پہلے کبھی خالی نہیں ہوا۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے سابق عہدیدار کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 224 اور 224 اے میں فراہم کردہ طریقہ کار اس معاملے میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
آرٹیکل 224 اے کے مطابق وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اختلاف کی صورت میں دونوں دو دو نام اسپیکر کی جانب سے تشکیل کردہ صوبائی اسمبلی کی کمیٹی کو ارسال کرتے ہیں، اگر اختلاف برقرار رہتا ہے تو معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جاتا ہے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان اب پی ٹی آئی کے رکن نہیں رہے تو انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ پابندی نہیں ہے کہ تحلیل شدہ اسمبلی میں اکثریت نہ رکھنے والے وزیر اعلیٰ سے مشاورت نہیں کی جانی چاہیے۔
سینئر وکیل بابر خان یوسفزئی نے کہا کہ اعظم خان کے انتقال کے بعد آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے جب کہ ان کی موت کے ساتھ ہی ان کی نگران کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کو خطوط ارسال کیے ہیں جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ نئے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر سے متعلق مشاورت کے لیے 12 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں۔
دونوں کو ارسال اپنے الگ الگ خطوط میں گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ وہ آئینی ذمہ داری کے تحت ان سے ملاقات کے پابند ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے مطابق یہ عمل تین دن میں مکمل ہونا چاہیے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ خالی عہدے کو پُر کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کے لیے پیر کو اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
ادھر نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ قیاس آرائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعلیٰ کے انتقال کے بعد گورنر، چیف سیکریٹری اور صوبائی حکومت اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔