• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مسلم لیگ (ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہوا، ایم کیو ایم کی وضاحت

شائع November 8, 2023
امین الحق نے کہا کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنائیں گے — فوٹو: ڈان نیوز
امین الحق نے کہا کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنائیں گے — فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنماؤں نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ دونوں جماعتیں 8 فروری کے انتخابات میں مل کر حصہ لیں گی، تاہم اس پیش رفت نے اُس وقت حیران کن موڑ اختیار کرلیا جب دونوں جماعتوں کی جانب سے بظاہر اعلان کردہ اِس انتخابی اتحاد کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ تک محدود کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں جماعتوں کی جانب سے انتخابات مل کر لڑنے کے اس اعلان کو سندھ میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کی جانب پہلا قدم سمجھا جارہا ہے۔

یہ اعلان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سرد جنگ کے تناظر میں سامنے آیا ہے، پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام عائد کیا ہے۔

گزشتہ روز لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے وفد کی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین یہ طے پایا ہے کہ ان شااللہ ہم 8 فروری کے انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے۔

تاہم رات کو ایم کیو ایم-پاکستان کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر امین الحق نے واضح کیا کہ انتخابی اتحاد نہیں ہوا ہے، دونوں جماعتیں 8 فروری کو اپنے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گی۔

انہوں نے ’ڈان نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں ضرورت ہوگی وہاں ہم یقینی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے اور الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنائیں گے۔

مسلم لیگ (ن) سندھ میں 4 جماعتی اتحاد کی تشکیل کا بھی ارادہ رکھتی ہے، دیگر ممکنہ اتحادیوں میں ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف) اور پیر پگارا کی زیرِ قیادت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) شامل ہیں، تاہم پیپلزپارٹی اس اقدام کے پیچھے ’کسی اور‘ کا ہاتھ دیکھ رہی ہے۔

واضح رہے کہ جب سے نگران حکومت نے حلف اٹھایا ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔

پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر وفاق میں قائم نگران حکومت کا حصہ بننے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملی بھگت کا الزام عائد کیا ہے، پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ ایسی صورتحال میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکتا۔

مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کا عندیہ دیا ہے، جس کی قیادت 9 مئی فسادات کے بعد دائر کیے گئے کیسز کے سلسلے میں جیل میں ہے۔

پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا سامنا ہے، اس لیے کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بااختیار حلقوں کی اجازت کے بغیر پی ٹی آئی کو اپنی جانب مائل کرکے پیپلزپارٹی اپنے لیے مشکلات کو دعوت دے گی۔

دوسری جانب ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن، جنہوں نے ایک ماہ قبل مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی، اب انہیں مسلم لیگ (ن) سندھ کا صدر بنا دیا گیا ہے جبکہ شاہ محمد شاہ کو نائب صدر کا عہدہ ملا۔

اس حوالے سے سعد رفیق سے سوال کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں اپنے محنتی کارکنوں کو کیوں نظر انداز کیا اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو کیوں ترجیح دی؟ جواب میں سعد رفیق نے کہا کہ بیوروکریٹ ہونا کوئی جرم نہیں، پارٹی کے وفادار کارکنان کو کمیٹی میں جگہ دی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024