پاکستان نے فلسطینی مؤقف کے دفاع کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، منیر اکرم
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کے دوران پاکستان نے فلسطین کی پوزیشن کے دفاع اور اس کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
منیر اکرم نے ڈان نیوز انگریزی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے فلسطینیوں کے مؤقف کو واضح انداز میں پیش کرنے میں بہت کامیابی سے کام کیا ہے اور اس الم ناک جنگ کے خاتمے تک ہم اس کوشش کو جاری رکھیں گے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے حملے میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے اور حماس نے 200 سے زائد افراد کو اغوا کر لیا تھا۔
اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور زمینی حملے کے لیے فوج بھی بھیج دی ہے جس کے نتیجے میں 10ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
فلسطینیوں پر کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم اور وحشیانہ بمباری کے خلاف دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں جہاں ایک طرف مغربی ممالک کے رہنماؤں نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان اور وعدہ کیا ہے تو دوسری جانب مسلمان ممالک سمیت دیگر ریاستوں نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیروں اور سفارت کاروں کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔
اس بحران پر قابو پانے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی محدود صلاحیت اور اقوام متحدہ کے اندر اس حوالے سے پائی جانے والی بے چینی کے بارے میں پوچھے جانے پر منیر اکرم نے کہا کہ میرے خیال میں اقوام متحدہ کے اندر یکساں طور پر سب ہی کسی نہ کسی انداز میں اسرائیلی کارروائیوں اور بمباری کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے مسلم اور عرب ممالک نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں اگر کوئی جینوسائیڈ(نسل کشی) کنونشن کو پڑھتا ہے تو یہ تمام کارروائی نسل کشی کی تعریف پر مکمل طور پر لاگو ہوتی ہے لہٰذا اسرائیلی جو کچھ کر رہے ہیں اس بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل چند طاقتوں کی وجہ سے مفلوج ہے جنہوں نے جنگ بندی کے مطالبے کو روک دیا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عرب دنیا اور اسلامی تعاون تنظیم سے تعلق رکھنے والے ممالک کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرارداد پر عمل کیا اور اسے منظور کیا۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اس تنازع کا خاتمہ ہو گا، اس کے علاوہ قراردار میں غزہ کے لیے انسانی امداد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی اسرائیلی کوششوں کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی تنظیموں پر اس قرارداد پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اقوام متحد ہ کی سیکیورٹی کونسل آواز نہ بھی اٹھائی تو جنرل اسمبلی نے ضرور آواز بلند کرے گی۔
منیر اکرم نے کہا کہ جن ممالک نے قرارداد کی حمایت نہیں کی تھی ان کا ضمیر ہماری رائے کی حمایت کرتا ہے لیکن ان کی سیاسی پوزیشن اسرائیل اور اس کے دوستوں کے ساتھ اسٹریٹیجک اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے محدود ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ کے ایک مباحثے کے دوران رکن ممالک سے کہا تھا کہ وہ اپنے ضمیر کا جائزہ لیں، یہ نسل کشی ہے، اور ہمیں اس پر فوری توجہ دینی چاہیے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ بے بس فلسطینی شہریوں کے خلاف بمباری اور فوجی کارروائی بند کرے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی تو پھر دیکھنا ہو گا کہ جنرل اسمبلی کیا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پاس اختیارات ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے فیصلہ کن نفاذ کے لیے کتنی حمایت حاصل کر سکتے ہیں، ہم کوشش کریں گے لیکن بڑی طاقتیں ہیں جو اس کی مخالفت کریں گی لیکن ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کچھ نہ بھی کر سکے تو جنرل اسمبلی کے ذریعے ہم کیا حاصل کر سکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یو این جی اے کیا اقدامات کر سکتی ہے، تو منیر اکرم نے کہا کہ ان میں تیل کی برآمد پر پابندی، تجارتی تعلقات کا خاتمہ، سول ایوی ایشن منقطع کرنا اور غزہ میں اسرائیل کے اقدامات پر دباؤ ڈالنے اور سزا کے لیے کئی دیگر اقدامات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں فیصلہ کن طاقت امریکا کے پاس ہے اور وہ بالآخر غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کر چکا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس دباؤ کے نتیجے میں اسرائیل پر قابو پا کر تنازع ختم کیا جائے گا۔
جنگ بندی کے بارے میں پوچھے جانے پر منیر اکرم نے کہا کہ آخر کار اس چیز کو رکنا ہی ہے، یہ سب ایسے جاری نہیں رہ سکتا۔
اقوام متحدہ کے ایلچی نے مزید کہا کہ تل ابیب کو غزہ میں اپنی فوجی مہم کا جائزہ لینا پڑے گا کہ انہوں نے کس قیمت پر یہ جنگ چھیڑی تھی، اگر تل ابیب میں کوئی معقول حکومت ہوتی، تو وہ اس جنگ میں اپنا فائدہ دیکھتے اور اسے ختم کر دیتے، بدقسمتی سے اس وقت اسرائیلی رہنما انتہا پسند ہیں اور یہی مسئلہ ہے۔