فوج مخالف ٹوئٹس کیس: خدیجہ شاہ کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری
ٹوئٹس کے ذریعے مبینہ طور پر لوگوں کو فوج کے خلاف اکسانے کے الزام میں مشہور فیشن ڈیزائنر اور تحریک انصاف کی کارکن خدیجہ شاہ کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سیشن کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج محمد نواز نے تحقیقاتی افسر کو حکم دیا کہ مقدمے کا ریکارڈ کو آج (یعنی 7 نومبر) پیش کیا جائے۔
خدیجہ شاہ کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے خدیجہ شاہ کو ان کے خلاف درج کیے گئے 9 مئی کے پُرتشدد واقعات کے مقدمے میں ضمانت دے دی تھی مگر ایف آئی اے انہیں سائبر کرائم قانون کے تحت ایک نئے مقدمے میں گرفتار کر لیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو درخواست گزار کا جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کردیا اور ان کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا۔
وکیل نے یہ دلائل دیتے ہوئے ایف آئی اے کے مؤقف کو رد کردیا تھا کہ درخواست گزار گزشتہ پانچ ماہ سے جیل میں ہیں، وہ جیل سے ٹوئٹس کیسے کر سکتی ہیں۔
خدیجہ شاہ کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت خدیجہ شاہ کو ایف آئی اے کیس میں ضمانت فراہم کرے۔
ایف آئی اے نے یہ الزام لگایا کہ خدیجہ شاہ نے ’قابل اعتراض‘ ٹوئٹس کیے، جو ابھی تک سوشل میڈیا پر صارفین دوبارہ پوسٹ کر رہے ہیں، مزید کہا کہ 9 مئی سے متعلق ٹوئٹس میں انہوں نے لوگوں کو آرمی کے ادارے کے خلاف اکسایا تھا۔
ضمانت کے مقدمات
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کارکن صنم جاوید کی درخواست پر مزید دلائل طلب کر لیے، جس میں 9 مئی کو ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو نذر آتش کرنے کے مقدمے میں بعد از گرفتاری کی ضمانت کی درخواست کی گئی تھی۔
قبل ازیں، وکیل نصیرالدین نیر نے کارکن کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کی مؤکلہ کو اس مقدمے میں اُس وقت گرفتار کیا، جب ان کے خلاف درج 2 مقدمات میں صنم جاوید کو ضمانت مل گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ضمانت کے بعد ایک نئے کیس میں درخواست گزار کی گرفتاری پولیس کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزار کی ضمانت منظور کی جائے اور انہیں جیل سے فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔
جج ارشد جاوید نے کیس کی سماعت آج (منگل) تک ملتوی کر دی تھی۔
جج نے دو ملزمان تاج محمد اور محمد تنویر کی درخواست ضمانت بھی ملتوی کر دی۔
عثمان ڈار کے خلاف مقدمے میں پولیس سے ریکارڈ طلب
لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے سابق رہنما عثمان ڈار کے خلاف دائر دھوکا دہی اور فراڈ کے مقدمے کا پولیس ریکارڈ طلب کرلیا۔
سیالکوٹ کی رنگ پورہ پولیس نے نے مبینہ طور پر جعلی دستاویزات کی بنیاد پر مڈل کلاس اسکول میں چوکیدار کی سرکاری نوکری حاصل کرنے والے ملزم جاوید علی کے بیان پر ان کے خلاف دائر مقدمے میں عثمان ڈار کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر برائے خواتین نے تحقیقات میں ان کے تعلیمی اسناد جعلی ہونے کے بعد جاوید علی کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
پولیس نے ملزم کو حراست میں لے لیا، دوران تفتیش جاوید علی نے یہ انکشاف کیا کہ ملزم نے تحریک انصاف کے رہنما کو 20 لاکھ روپے رشوت دے کر یہ نوکری حاصل کی تھی۔
عثمان ڈار نے اس مقدمے کو ختم کرنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
ان کی جانب سے ایڈووکیٹ عرفان رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے عثمان ڈار کو محض ایک بیان پر بغیر کسی قانونی جواز اور شواہد پیش کیے من گھڑت مقدمے میں ملوث کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا عمل آئین کے آرٹیکل 10-اے کی خلاف ورزی ہے، جو منصفانہ ٹرائل کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
وکیل نے عدالت سے درخواست گزار کے خلاف درج ایف آئی آر کو ختم کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے اسٹیشن افسر کو آج (منگل) مقدمے کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکام دیا۔