پروفیسر شاہدہ قاضی: ایک باوقار خاتون جو تاعمر اپنے اصولوں پر قائم رہیں
جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت کی پہلی طالبہ، پاکستانی صحافت میں پہلی خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون پروڈیوسر اور جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی پہلی خاتون استاد، جب کبھی جامعہ کراچی اور پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتب کی جائے گی، اس میں یہ تمام باتیں پروفیسر شاہدہ قاضی کے نام لکھی جائیں گی۔
شاہدہ قاضی صاحبہ 1944ء میں سندھ کے قاضی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سے ملنے والے ہمت و حوصلے کے سبب خاندان میں رائج روایتی شعبوں کو ترک کرکے جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا۔ صحافت کی سند حاصل کرنے کے بعد انہوں نے عملی صحافت میں قدم رکھا اور اس وقت خواتین صحافیوں کے حوالے سے رائج نظریات کو چیلنج کیا۔ بعد ازاں وہ صحافت کی تدریس سے منسلک ہوئیں اور مستقبل کے بےشمار صحافیوں کی تربیت کی۔ شاہدہ قاضی 28 اکتوبر 2023ء کو کراچی میں انتقال کرگئیں۔
پروفیسر شاہدہ قاضی نے ایک مرتبہ شعبہ ابلاغ عامہ کے طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے صحافتی سفر کے آغاز کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ’تعلیم مکمل ہونے کے بعد مجھے اپنے شعبے سے پڑھانے کی بھی پیشکش ہوئی لیکن میں یہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے صحافت اس لیے پڑھی تھی کیونکہ مجھے لکھنے کا شوق تھا اور میں فیلڈ میں کچھ کرنا چاہتی تھی۔ مجھے اس وقت ڈان کے سٹی ایڈیٹر نے بلایا اور ڈان میں ملازمت کی پیشکش کی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ڈان کے لیے رپورٹنگ کروں جوکہ اس وقت صرف مردوں کا کام سمجھا جاتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں رپورٹنگ کیسے کرسکتی ہوں؟ انہوں نے کہا کہ تم کرسکتی اور بس کل سے کام پر آجاؤ‘۔
وہ اس شعبے میں آئیں تو پھر اس کا حق بھی ادا کیا۔ انہوں نے پوری لگن اور تن دہی سے اپنے فرائض سرانجام دیے اور اس دوران معاشرتی مسائل اور رکاوٹوں کا بھی سامنا کیا۔ انہوں نے اپنے خاتون ہونے کو نہ کبھی کمزوری بننے دیا اور نہ کبھی اس کا فائدہ اٹھایا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’ہمارے گھر میں گاڑی اور ڈرائیور موجود تھا لیکن میں نے یہ اصول بنایا ہوا تھا کہ اگر میں کام کے لیے باہر نکلوں گی تو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کروں گی، اس سے مجھے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کو کن کن تجربات سے گزرنا پڑتا ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے ڈان میں کام کا آغاز کیا تو یہ بات واضح کردی تھی کہ انہیں کوئی خصوصی مراعات درکار نہیں، جس طرح مرد کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح کام کریں گی، نہ انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت چاہیے اور نہ ہی چھٹیاں۔ یہاں بلا تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے پاکستانی صحافت میں خواتین کی شمولیت کے لیے راہ ہموار کی۔
شاہدہ قاضی ایک باوقار اور نظریاتی خاتون تھیں جو اپنے خیالات اور (اپنے لیے) طے کردہ اصولوں پر تاعمر کاربند رہیں۔ ان کی زندگی کے کئی گوشے تھے، وہ ظاہری حوالوں سے جہاں جدیدت کی پروردہ نظر آتی تھیں وہیں باطن میں درویشانہ مزاج کی حامل تھیں۔
بحیثیت طالب علم مجھے ان سے صرف ایک ہی مضمون پڑھنے کا شرف حاصل ہوا لیکن اس ایک مضمون نے ہی ذہن پر اپنے ان منٹ نقوش چھوڑے۔ میڈم کی پُر شفقت شخصیت کی وجہ سے اکثر بے وجہ ہی ان کے کمرے میں جانے کا دل چاہتا تھا اور اس کے مواقع بھی حاصل ہوتے رہتے تھے۔
پاکستانی سیاست اور معاشرت ان کی دلچسپی کا موضوع تھا یہی وجہ ہے کہ جب ان سے ’پاکستان: ماضی اور حال‘ پڑھنے کا موقع ملا تو ہم ایک ایسی تاریخ سے آشکار ہوئے جو ہماری ابتدائی جماعتوں کی درسی کتب میں کہیں درج نہ تھی۔ سیاست کی تاریخ اور حال کے تنقیدی جائزے سے پہلی بار ان کی کلاس میں متعارف ہوئے۔ پاکستان کے حوالے سے ان کے مضمون کے لیے جتنی کتابیں میں نے اس وقت پڑھیں اتنی کتابیں اس کے بعد کبھی نہیں پڑھیں۔ وہ طالب علموں کو دلیل اور منطق کے ساتھ اختلاف کرنے پر اکساتی تھیں اور ساتھ ہی اختلاف رائے کا پورا موقع بھی فراہم کرتی تھیں۔ سیاست میں مجھے بھی بہت دلچسپی تھی اور اسی دلچسپی کی وجہ سے اکثر میڈم شاہدہ کے خیالات کو غلط ثابت کرنے کے لیے بھی میں بہت تیاری سے جاتی تھی۔ وہ میری تنقید کو خندہ پیشانی سے سنتی تھیں۔ اس حوالے سے ان کا بس ایک ہی تقاضہ ہوتا تھا اور وہ تھا ’حوالے کے ساتھ بات کرنا‘۔
میڈم نے کبھی اپنے نظریات طلبہ پر مسلط نہیں کیے۔ ہم نے طالب علم کی حیثیت سے اختلاف کرنا اور استاد کی حیثیت میں اختلاف کو سننے اور جہاں ضرورت ہو وہاں اصلاح کرنا پروفیسر شاہدہ قاضی سے ہی سیکھا۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ طالب علموں کے اختلاف کا اثر ان کے نمبروں پر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس بات کا ثبوت میں نے خود اپنے رزلٹ کی صورت میں بھی دیکھا۔
محترمہ شاہدہ قاضی کے مذہبی اور درویشانہ مزاج کی ایک جھلک ان کی جائے نماز سے ہمیں دیکھنے کو ملی۔ شعبہ ابلاغِ عامہ کی پرانی عمارت کے گرلز کامن روم میں میڈم نے اپنی ایک جائے نماز رکھی تھی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ میڈم نے خود سی تھی۔ وہ جائے نماز ایک انتہائی سادہ کپڑے کی بنی ہوئی تھی اور اس پر سجدے کی جگہ عام جائے نماز کے برعکس کسی ڈیزائن یا مقامات مقدسہ کی شبہیہ نہیں تھی بلکہ اس پر ربن سے ایک ’وی‘ کا نشان بنا ہوا تھا۔ یوں ان کی جائے نماز بھی سادگی کا مرقع تھی۔
زمانہ طالب علمی میں میری ایک سہیلی جو الیکٹرانک میڈیا میں پڑھتی تھی، کسی وجہ سے جامعہ آنے سے قاصر رہی۔ اس نے میڈم کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دینے پر قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن میڈم کا بہت سادہ سا جواب ہوتا تھا کہ ’تم نے کوئی کلاس ہی نہیں لی ہے اور مجھے بھی اپنی قبر میں جاکر حساب دینا ہے‘۔
ہم نے پروفیسر شاہدہ قاضی کو خوش مزاج، پُرجوش اور زندگی سے بھرپور ہی پایا۔ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کے حق کی حامی رہیں۔ انہوں نے عملی صحافت میں موجود خواتین صحافیوں کی راہ سے ناجانے کتنے کانٹے ہٹائے اور بحیثیت استاد وہ بے شمار خواتین اساتذہ اور طالبات کے لیے مشعلِ راہ بنیں۔ انہیں خود بھی اپنے طلبہ سے بہت لگاؤ تھا۔ گزشتہ دنوں انہیں کراچی پریس کلب کی تاحیات رکنیت دی گئی اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی کا اثاثہ ان کے طلبہ ہیں۔
پروفیسر شاہدہ قاضی آج ہم میں نہیں رہیں لیکن ان کی شخصیت اور بااصول اور باکردار زندگی ہمارے لیے ہمیشہ ایک مینار نور رہے گی۔
ڈاکٹر عصمت آرا جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کی چیئرپرسن ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔