اسرائیلی آبادکاروں کے حملے غزہ جنگ میں لگی آگ کو ہوا دے رہے ہیں
اپنے والد اور بھائی کا افسوس کرتے ہوئے، محمد ویدی نے کہا کہ مسلح اسرائیلی آباد کار زیتون اگانے والے مغربی کنارے کے گاؤں سے نظر نہ آنے والی چوکیوں سے فلسطینیوں پر حملہ کرتے وقت ان کا مقصد عام نہیں، ’اب وہ مارنے کے لیے گولی چلاتے ہیں‘۔
اسرائیل کے قبضے میں مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہوگیا ہے جہاں پہلے ہی گزشتہ 15 سال کے مقابلے میں رواں برس اضافہ ہوگیا ہے اور حماس کے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ایک اور علاقے میں ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کو عینی شاہدین نے بتایا کہ ’12 اکتوبر کو محمد ویدی کے والد اور بھائی اس وقت گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے تھے جب اسرائیلی آبادکاروں اور فوج نے ایک دن پہلے آبادکاروں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے تین فلسطینیوں کا جنازہ روکا تھا، یہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق حماس کے حملے کے بعد فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیل کے 170 حملوں میں سے ایک تھا، جس میں آباد کار ملوث تھے۔
زیتون اگانے کے لیے مشہور گاؤں قصرہ سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ محمد ویدی کا کہنا تھا کہ’ عرب اور یہودی ایک دوسرے پر پتھراؤ کرتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ میری عمر کے آباد کاروں میں سب کے پاس اب خودکار ہتھیار موجود ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی پہلے مسلح افراد تصادم کے دوران گاؤں کے لوگوں کو ڈرانے یا زخمی کرنے کے لیے ہتھیار چلاتے تھے مگر فائرنگ بدترین شکل اختیار کرتی جاتی تھی۔
خبرایجنسی رائٹرز اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ اس وادی پر کس نے گولی چلائی، جنازے پر ہونے والے قتل کی تفتیش کرنے والے فلسطینی حکام کا کہنا تھا کہ لگ رہا ہے کہ گولی فوج کے بجائے اسرائیلی آبادکاروں کی طرف سے آتی دکھائی دے رہی ہیں، اس خیال کی تائید موقع پر موجود تین لوگوں نے بھی کی۔
فلسطینی 6 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں نابلس کے قریب، اسرائیلی آباد کاروں کے حملے میں جاں بحق ہونے والے 19 سالہ فلسطینی لبیب دمیدی کی تدفین کے دوران احتجاج میں شامل تھے۔
مغربی کنارے کی مرکزی آبادکار تنظیم یشا کونسل کی سربراہ، شیرا لیبمین نے رائٹرز کو بتایا کہ آباد کار قتل میں ملوث نہیں اور نہ ہی وہ فلسطینیوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔
سخت دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اور اسرائیلی آبادکاری میں رہنے والے دو میں سے ایک اعلیٰ افسر ایتامر بین گویر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی شہریوں بشمول آباد کاروں کے لیے حماس کے حملے کے بعد 10 ہزار رائفلز کی خریداری کا حکم دیا تھا۔
ایتامر بین گویر کے دفتر نے اس بارے میں ردعمل کے لیے رابطے پر کوئی جواب نہیں دیا کہ کیا مغربی کنارے پر یہ بندوق پہلے ہی تقسیم کی جاچکی ہیں، 11 اکتوبر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر انہوں نے کہا تھا کہ لبنان کے قریب مغربی کنارے کے شمال پر واقع علاقوں میں 900 رائفلز دی جا چکی ہیں جبکہ جلد ہی ہزاروں اور بھی تقسیم کر دی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (او سی ایچ اے) کے مطابق اس سال آباد کاروں کے حملے میں 29 فلسطینی جاں بحق ہوئے، ان میں کم از کم 8 افراد 7 اکتوبر کے حملے کے بعد مارے گئے، جن سے عام فلسطینی، اسرائیلی سیکیورٹی ماہرین اور مغربی حکام پریشان ہیں۔
واشنگٹن نے آبادکاروں کی جانب سے مغربی کنارے پر فلسطینیوں پر حملوں کی مذمت کی جبکہ یورپی یونین نے منگل کو ’آباد کاروں کی دہشت گردی‘ کی مذمت کی، جس سے تنازع مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق آبادکاروں کے حملوں میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے جب سے غزہ پٹی کی حکمران جماعت حماس کے حملوں میں 1400 اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل نے اس کے بعد سے غزہ میں حملہ اور بمبار ی کی جس کے نتیجے میں 9 ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
حماس کے کنٹرول میں محاصرہ زدہ غزہ شامل ہے جبکہ مغربی کنارے میں پہاڑی علاقوں اور شہروں، اسرائیلی بستیوں اور اور فوج کی چیک پوائنٹس کا ایک پیچیدہ عمل ہے جس کی وجہ سے فلسطینی تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔
حماس نے اپنے حملے میں مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں کا حوالہ دیا تھا، جس کو وہ مکنہ فلسطینی ریاست کا مرکز قرار دیتے ہیں۔
جنازوں پر خونریز حملے
ان کا کہنا تھا کہ 11 اکتوبر کو قصر کے نزدیک زیتون کے باغ میں اسرائیلی آبادکاروں کی فائرنگ سے 3 فلسطینیوں کے قتل کے بعد محمد ویدی کے بھائی احمد اور ان کے والد نے اسے اپنا فرض سمجھا کہ وہ جنازے کو سلامی دیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ ویدی کے والد کو جسم پر گولیاں لگیں اور اس کے بھائی کے گردن اور سینے پر گولیاں ماری گئیں، جس کے قبل آباد کاروں نے یونیفارم میں ملبوس فوج کی موجودگی میں سڑک کے کنارے جنازے کو روک لیا تھا۔
فلسطینی حکومت کے سیٹلمنٹ اینڈ وال ریزسٹنس کمیشن کے لیے کام کرنے والے عبداللہ ابو رحمہ کا کہنا تھا کہ ’آبادکاروں کی طرف سے فائرنگ کی گئی‘۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس دن فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہونے والا تصادم روکنے کی کوشش کی اور اس واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
اسرائیلی آبادکاری کی افسر شیرا لیبمین نے قتل کے واقعات میں آباد کاروں کے ملوث ہونے کا تاثر رد کر دیاجبکہ باد کاروں کی حمایت کرنے والے مقامی عبرانی زبان کے سوشل میڈیا پیج کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج نے وادیوں پر گولی چلائی تھی۔
شیرا لیبمین نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے حصے سے زیادہ دہشت گرد کی کے حملے بھگت چکے ہیں، ہمیں ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے اور جس کی بازگشت حماس کے حملے کے بعد اسرائیلیوں میں بڑے پیمانے پر سیکیورٹی خدشات کی صورت میں پائی جاتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سیکیورٹی ٹیمیں یہودی کمیونٹی کو تحفظ دینے کے لیے ہیں۔
7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے، مغربی کنارے کے فلسطینیوں میں حماس کے لیے واضح حمایت میں اضافہ ہو گیا ہے جن میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جہاں یہ گروپ روایتی طور پر مضبوط نہیں تھا۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ سال مغربی کنارے کے رہائشیوں کے لیے پہلے ہی کم از کم 15 برسوں میں سب سے زیادہ مہلک رہا ہے، جس میں تقریباً 200 فلسطینی اور 26 اسرائیلی ہلاک ہوئے لیکن 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے صرف تین ہفتوں میں مغربی کنارے کے مزید 121 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر فلسطینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں میں جاں بحق ہوئے ہیں۔
مگر اسرائیلی شدت پسندوں کی کارروائیوں نے فلسطینیوں میں مزید نفرت میں اضافہ کر دیا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں مزید مسلح کارروائیاں ہوسکتی ہیں۔
اسرائیلی افواج کا کہنا تھا کہ وہ تشدد کم کر کے فلسطینیوں کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔
رائٹرز کے آباد کاروں کے حملے کے حوالے سے سوال پر ایک ترجمان نے کہا کہ ’ان واقعات سے یہاں سیکیورٹی کی صورت حال متاثر ہوتی ہے، ایسے واقعات مزید تصادم کو جنم دیتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے‘۔
’سنگین خطرہ‘
اسرائیلی سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ’غزہ میں جاری جنگ میں دائیں بازو کے سیاست دانوں کے اثر ورسوخ میں اضافے کی وجہ سے آبادکاروں کے تشدد سے نمٹنا شکل ہوتا جا رہا ہے‘۔
اسرائیل کی شن بیٹ انٹرنل سیکیورٹی سروس کے سابق افسر لیور اکرمین کا کہنا تھا کہ ’مغربی کنارے میں انتہا پسند دائیں بازو کے آباد کاروں سے شدید خطرہ لاحق ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ ان کو حکومتی نمائندوں کی حمایت بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی کے اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے’۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے انتہا پسند دائیں بازو کے وزیروں بشمول ایتامر بین گویر کو اگلے مرحلے میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسرائیل کے ایک اعلیٰ حکومتی افسر کا کہنا تھا کہ ’وقفے وقفے سے جاری (مغربی کنارے میں) فلسطینی دہشت گردی کی وجہ سے حالات قابو کرنا مزید دشوار ہوگیا ہے‘۔
اسرائیلی محکمہ دفاع نے ریاستی حفاظت کی بنیاد پر مشہور آباد کار کارکن ایرئیل ڈینینو کو حراست میں لینے کا حکم دے دیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آباد کاروں کی کارروائیاں اسرائیلی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر رہی ہیں، یہ عمل عموماً فلسطینی کارکنان کے لیے کیا جاتا ہے۔
’ہمیں اسلحہ دو‘
ویدی کا خاندان مقامی برادری سے جڑا ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلح کارروائی سے بچنا چاہتے ہیں جبکہ انہوں نے اسرائیلی آبادکاروں کی جارحیت میں اضافہ دیکھا۔
وہ فلسطینی ادارے کے لیے کام کرتا ہے جو فوجی اور آباد کاروں کے تشدد کو مانیٹر کرتا ہے۔
ویدی کا کہنا تھا کہ ’ان کے والد ابراہیم، جو کہ مقامی افسر تھے، نے تشدد میں کمی لانے کے لیے اسرائیلی اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان ثالثی کروانے کی کوشش کی تھی اور وہ انتہا پسند آباد کاروں کو سخت ناپسند تھے۔
اکرمین کا کہنا تھا کہ آباد کاروں کے تشدد کی وجہ سے مغربی کنارے میں ابھرتی ہوئی نئی فلسطینی جنگجوؤں کی نسل کے ساتھ مسلح جھڑپوں کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
رائٹرز کے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جنازے میں، جو 12 اکتوبر کو بالآخر وادی کی ہلاکتوں کے بعد ہوا، فلسطینی اسلحہ بردار گھروں کی چھت پربیٹھ کر جنازے کی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے، بظاہر وہ کسی آبادکار کے تشدد سے حفاظت کے لیے مامور تھے۔
ابھی تک کسی بھی قسم کی اہم کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے میں فلسطینی تحریک کو دبایا ہوا ہے اور ہزاروں لوگ زیر حراست ہیں۔
قصرہ میں گزشتہ ہفتے، ویدی نے اپنے بھائی اور والد کی یاد میں بنائے گئے پوسٹر کے نیچے بیٹھ کر اپنے موبائل میں مقامی فلسطینیوں کو عبرانی زبان کے سوشل میڈیا پیجز پر ملنے والی دھمکیاں دکھائیں۔
ویدی کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے خود کو گھیرا ہوا محسوس کیا، قصرہ کے سامنے ہونے والی آبادکاروں کی بستی قلعہ نما ایک بڑی دیوار کے ساتھ ہے اور دو دیگر بستیاں زیتون کے باغوں کے اوپر پہاڑیوں پر بنی ہوئی ہیں‘۔
ایک شہری عبداللہ، جس نے صرف اپنا پہلا نام بتایا، نے مزید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بندوق اٹھانے کے لیے تیار ہوں اگر کوئی ہمیں اسلحہ دے‘۔