• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

صحافیوں کے تحفظ کیلئے قوانین کی منظوری کے باوجود صورتحال مزید بدتر

شائع October 30, 2023
عمران خان اور شہباز شریف، دونوں کی حکومتیں اس قانون کے تحت سیفٹی کمیشن بنانے میں ناکام رہیں—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
عمران خان اور شہباز شریف، دونوں کی حکومتیں اس قانون کے تحت سیفٹی کمیشن بنانے میں ناکام رہیں—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ملک میں گزشتہ 2 برس کے دوران 11 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور 2023 میں پاکستان ’ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس‘ میں 180 ریاستوں میں سے 150 نمبر پر رہا، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ سے متعلق قوانین بنانے والا دنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں پر ظلم و ستم میں ملوث ہونے کا الزام سرکاری حکام اور ریاستی ایجنسیوں پر عائد کیا جاتا رہا ہے، جس میں اغوا، جسمانی حملے اور ان کے خلاف سنگین قانونی مقدمات مثلاً بغاوت، غداری اور الیکٹرانک جرائم کا اندراج شامل ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی میں دنیا کا پہلا ملک بننے کے 2 برس بعد بعد بھی پاکستان صحافیوں کے خلاف جرائم میں اضافے سے نمٹنے کے لیے قانون کے استعمال میں تاحال ناکام ہے۔

’دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اُس وقت منظور کیا تھا جب عمران خان 2021 میں وزیراعظم تھے، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں برطرف کرنے کے بعد شہباز شریف 2022 میں وزیراعظم بن گئے تھے۔

تاہم عمران خان اور شہباز شریف، دونوں کی حکومتیں اس قانون کے تحت ایک سیفٹی کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہیں اور اسلام آباد صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک شہر بن گیا۔

2021 کے آخر میں پہلے حکومت سندھ اور پھر وفاقی حکومت کی جانب سے صحافیوں کے لیے حفاظتی قوانین کے نفاذ کے بعد سے پاکستان میں صحافیوں پر ظلم و ستم میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

سندھ اسمبلی نے ’سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021‘ جبکہ قومی اسمبلی نے ’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021‘ چند ماہ کے وقفے سے منظور کیا، پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان نے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کے خلاف اگست 2021 سے اگست 2023 کے درمیان کُل 248 میں سے 93 (37.5 فیصد) واقعات اسلام آباد میں ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صحافیوں کے خلاف واقعات میں سندھ 56 کیسز (22.5 فیصد) کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عرصے میں صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ کیسز ان ہی علاقوں میں ہوئے جہاں ان کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی گئی۔

صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین کی منظوری سے قبل’ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر’ کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2021 میں پاکستان 180 ممالک میں 157 ویں نمبر پر تھا، اِن 2 قوانین کی منظوری کی وجہ سے 2023 میں پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوکر 150 پر آگئی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد صورتحال مزید بدتر ہوگئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024