’مستقبل میں کہیں آلودگی ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نہ بن جائے‘
رات کے دو بج رہے تھے۔ میں ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھنے میں مگن تھا۔ لفظوں کے تانے بانے بُنتے بےدھیانی میں میری نظر چھت پر پڑی تو پنکھے پر جمی مٹی کی دبیز تہہ میں الجھ گئی اور میں نے سوچا کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی میں نے پنکھا صاف کروایا تھا تو چند دن میں یہ اتنا گرد آلود کیسے ہوگیا؟
مجھے پنکھے پر جمی دھول اپنے حلق میں اترتی محسوس ہوئی۔ یہ خیال اتنا شدید تھا کہ میں اپنا کام چھوڑ کر پنکھا صاف کرنے میں لگ گیا۔ کپڑا گیلا کرکے پروں پر پھیرا تو وہ صاف ہونے کی بجائے مزید گندے ہوگئے اور کالک، گرد اور روئی نما جالے اڑ کر فرش پر علیحدہ پھیل گئے۔ میں نے بجلی کا مین سوئچ بند کرکے سرف اور سرکے کا محلول بنا کر لگایا تو پنکھا تو صاف ہوگیا لیکن اس پر جمی کالک اور گرد میرے دماغ سے چپک کر رہ گئی۔
میں 2012ء میں اسلام آباد کے علاقے بنی گالا میں منتقل ہوا تھا۔ اس وقت یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہر طرف گھنے درخت اور سبزہ تھا۔ مغرب ہوتے ہی سڑک پر سور، لومڑیاں اور خرگوش مٹر گشت شروع کردیتے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ مکانات جنگل اور درختوں کو کھا گئے۔ بے ہنگم ٹریفک اور تعمیرات کی وجہ سے اُٹھنے والی گرد ہر وقت آسمان پر چھائی رہنے لگی۔
مجھے خیال آیا کہ جب گھر کے پنکھے پر اتنی گرد ہے تو پھیپھڑوں میں کتنی جاتی ہوگی۔ یہی سوچتے ہوئے میں نے محکمہِ تحفظ ماحولیات کی ویب سائٹ کھول لی جہاں سب اچھے کی رپورٹ تھی۔ پی ایم کی مقدار 39 سے بھی کم بتائی گئی تھی۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ اگر فضا میں آلودگی نہیں تو میرے پنکھے پر اتنی کالک اور کاربن کہاں سے آئی۔ امریکی سفارتخانے میں نصب فضائی آلودگی جانچنے کے مرکز کا ڈیٹا دیکھا تو معلوم ہوا کہ پی ایم اچھا خاصا بڑھا ہوا ہے۔ 7 اکتوبر کو تو یہ 62 سے بھی تجاوز کرگیا تھا۔
کئی دہائی پہلے اسلام آباد شہر میں فضائی آلودگی جانچنے کے لیے آلات نصب کیے گئے تھے۔ انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر شہر میں آلودگی پھیلانے والے ذرائع کے سدباب کے حوالے سے فیصلے کیے جاتے تھے۔ اگر ادارہ برائے ماحولیات کی جانب سے نصب کیے گئے یہ آلے ہی درست کام نہیں کررہے تو حکومت کیا اقدامات کرے گی۔ میں اس حوالے سے سوچ میں مبتلا ہوگیا لیکن یہاں میں اپنی کتھا سنانے سے پہلے فضائی آلودگی کے حوالے سے کچھ بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔
فضائی آلودگی کیا ہے؟
فضا میں موجود کیمیائی گیسوں نائٹروجن، کاربن مونو آکسائیڈ، مٹی کے ذروں اور دوسرے ننھے ذرات کو ’پارٹیکولیٹ مَیٹر‘ کہا جاتا ہے، فضا میں موجود ان کی مقدار سے فضائی آلودگی کے تناسب کو ناپا جاتا ہے۔ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے مہلک ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ہر سال پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 22 ہزار افراد جاں بحق جبکہ 4 کڑور سے زائد افراد سانس کی بیماریوں (رسپائریٹری انفیکشنز) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کئی افراد میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر وقت تھکن، سانس لینے میں دشواری اور طبیعت میں بے چینی اور چڑچڑاہٹ بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
پارٹیکولیٹ میٹر کیا ہوتے ہیں؟
پارٹیکولیٹ مَیٹر کو دو درجوں، پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ ننھے ذرات پھیپھڑوں کے ذریعے سانس کی نالی میں داخل ہوکر سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، الرجی اور دوسرے کئی امراض پیدا کرسکتے ہیں۔ پی ایم کی تعداد 39 سے بڑھے تو فضا کو آلودہ تصور کیا جاتا ہے۔ گرمیوں میں تو پارٹیکولیٹ مَیٹر کا پتا نہیں چلتا لیکن جیسے ہی سردیاں آتی ہیں اور موسم میں خنکی بڑھتی ہے تو یہی پارٹیکولیٹ میٹر فضا میں دھند یا اسموگ کا باعث بنتے ہیں۔
اسلام آباد میں فضائی آلودگی کی وجوہات کیا ہیں؟
اگر اسلام آباد میں فضائی آلودگی نہیں ہے تو امریکی سفارت خانہ کیوں اس شہر کو آلودہ قرار دے رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کی کھوج میں، میں ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (پی ای پی اے) کے دفتر پہنچ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے پنکھے پر موجود گرد اور کالک کی واحد وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ روزانہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور گلیات جانے والی ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں اسلام آباد شہر کے قریب سے گزرتی ہیں جو شہر کی فضا کو آلودہ کررہی ہیں۔
معلوم ہوا کہ 18ویں ترمیم کے بعد پی ای پی اے کے حصے میں معمولی بجٹ آتا ہے جو عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ افسران کا شکوہ تھا کہ بجٹ کی قلت کے باعث ماحول کو آلودگی سے بچانے کے کسی منصوبے پر مدت سے کام نہیں ہوا۔ ادارہ تحفظ ماحولیات اور امریکی سفارتخانے کے اعدادوشمار میں فرق اس لیے ہے کیونکہ ادارے کے فضائی آلودگی کو جانچنے کے آلات ایچ 8 کے سرسبز سیکٹر میں نصب ہیں جہاں چند سرکاری عمارتیں ہیں یا پھر قبرستان۔ میں افسران کی اس منطق سے زیادہ قائل نہیں ہوا کہ آلودگی کی وجہ محض ٹریفک ہے۔ گفتگو میں کسی افسر نے درختوں کا ذکر تک نہیں کیا۔
جنگلات فضا کو صاف رکھنے میں ایک فلٹر کا کام کرتے ہیں۔ درخت فضا میں موجود پارٹیکولیٹ مَیٹر اور زہریلی گیسوں کو جذب کرکے فضائی آلودگی کو کم رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ 10 سالوں میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔ گھنے جنگلات کی جگہ اب سڑکوں کے جال نظر آتے ہیں۔ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پھیلی ہاؤسنگ سوسائٹیز شہر کا سبزہ کھا گئی ہیں۔ حکام سے جب میں نے پوچھا کہ اسلام آباد کی آلودگی میں درختوں کی کٹائی کا کتنا ہاتھ ہے تو سب میرا منہ تکنے لگے۔ ایک صاحب بولے ’ہمیں نہیں معلوم کہ شہر میں کتنے درخت کٹے اور اس کا ماحول پر کیا اثر ہوا۔ یہ آپ کو محکمہ جنگلات والے ہی بتائیں گے‘۔
پاکستان میں فضائی آلودگی
میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ فضائی آلودگی جانچنے کے امریکی ادارے آئی کیو ایئر کے مطابق 2022ء میں پاکستان دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک تھا۔ اسلام آباد میں آلودگی سب سے کم اور لاہور میں سب سے زیادہ رہی۔
گزشتہ سال کے دوران لاہور کی فضا صرف 17 روز کے لیے نقصان دہ شرح سے کم رہی جبکہ 214 دن شہر کی فضا میں مہلک آلودگی رہی۔ گزشتہ سال لاہور، قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، فیصل آباد، گجرانوالہ، راولپنڈی، ڈیرہ غازی خان، اور مظفر گڑھ میں پارٹیکیولیٹ میٹر کے ساتھ ساتھ مہلک گیسیں جیسے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی شرح بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔
2022ء میں کراچی بھی فضائی آلودگی کا شکار رہا۔ 25 ستمبر کو کراچی کا ایئر کوالٹی انڈیکس 173 اور پی ایم 98 ریکارڈ کیا گیا جوکہ عالمی ادارہ صحت کی مقررہ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہر سال لاہور اور پنجاب کے کئی دیگر شہروں میں پی ایم اور زہریلی گیسوں کی وجہ سے اسموگ یا دھند بنتی ہے جس سے ٹریفک حادثات ہوتے ہیں اور سانس و گلے کے امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس بار بھی لاہور میں اسموگ پر قابو پانے کے لیے بدھ کی تعطیل زیرِغور ہے۔
دورانِ تحقیق معلوم ہوا کہ فضائی آلودگی ناپنے یا اس پر قابو پانے کے لیے ریاستی سطح پر کوئی ہم آہنگی یا اشتراک نہیں جس کی وجہ سے کئی بار صوبے ایک دوسرے سے متصادم پالیسیاں بنا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر انتظامیہ اسلام آباد میں پلاسٹک بیگ پر پابندی اس لیے عائد نہیں کرپائی کیونکہ دارالحکومت میں جڑواں شہر راولپنڈی سے بیگ پہنچ جاتے تھے کیونکہ وہاں پلاسٹک بیگز پر ممانعت نہیں۔
پاکستان میں تیزی سے کم ہوتے جنگلات
شاہراہِ دستور کے قریب ایک بلند و بالا عمارت کے ایک فلور کے چند تنگ کمروں پر مشتمل محکمہ جنگلات میں بھی وسائل کا رونا ہی نظر آیا۔ محکمہ جنگلات، وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کا ذیلی ادارہ ہے۔ ایک صاحب سے ملا تو وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے البتہ میری درخواست پر چند منٹ بات کرنے کے لیے راضی ہوگئے۔ وہ مصر تھے کہ پورے ملک میں کوئی ایسی رپورٹ یا تحقیق موجود نہیں جس سے معلوم ہوسکے کہ گزشتہ 10 برسوں میں کتنے درخت کاٹے گئے۔
ان کے پاس تو صرف ان علاقوں کے اعدادوشمار موجود ہیں جو جنگل کی تعریف پر پورا اترتے ہیں یعنی جہاں 5 ایکڑ علاقے کے کم از کم 10 فیصد حصے پر دو میٹر یا اس سے بلند درخت موجود ہوں۔ شہری علاقوں میں موجود جنگل یا درختوں کے حوالے سے کوئی نئی رپورٹ یا تحقیق موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ہر ضلع کی مقامی انتظامیہ کے پاس اپنے اپنے علاقے کے درختوں کا کوئی ڈیٹا موجود ہو۔ انہوں نے وزارت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کا فارسٹ کور 5.4 فیصد ہے جس میں گزشتہ 70 سالوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
میرے لیے یہ تمام باتیں حیران کن تھی کیونکہ گزشتہ 30 یا 40 سالوں میں جنگلات میں آتشزدگی کے کئی بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ سال ہی کوہِ سلیمان کے ایک جنگل میں آگ لگنے سے 40 فیصد درخت جل کر راکھ ہوگئے تھے۔
اب یہ تو ممکن نہیں کہ ان درختوں کی جگہ نئے درخت لگ گئے ہوں کیونکہ پاکستانی جنگلات دیار، کائیل، صنوبر، فر، سپروس، چیڑ پائن اور چلغوزی پائن پر مشتمل ہیں جن کے ایک پودے کو درخت بننے میں کئی کئی سال اور بعض درختوں کو تو سیکڑوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ جب میں نے ان افسر کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو انہوں نے کوئی رائے دینے سے معذرت کرلی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ماحول پر لکھنے کے بجائے آبادی پر لکھوں کیونکہ بےتحاشا آبادی کی وجہ سے لوگ بطور ایندھن اور معاش کے لیے درخت کاٹتے ہیں جسے روکنا ناممکن ہے۔
وزارت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد جنگلات کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے تو محکمہ، انسپکٹر جنرل جنگلات اور ان کے معاونین کا عہدہ نمائشی بن کر رہ گیا ہے کیونکہ جب وسائل ہی نہیں ہوں گے تو کام کیا ہوگا۔ اسی عمارت کی راہداریوں میں میری ملاقات محکمہ جنگلات کوہستان کے ایک ریٹائرڈ افسر غیاث خان اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ وہ بہت شاکی تھے کہ ٹمبر مافیا مقامی عملے کے ساتھ مل کر پورے ملک سے درختوں کا بہت تیزی سے صفایا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں جنگل کے جنگل کٹ چکے ہیں۔ صرف کوہستان کے علاقے سے 10 فیصد درخت ڈیم اور ترقی کے نام پر کاٹے جاچکے ہیں۔ وہ میڈیا سے بھی ناراض تھے جو ان کے خیال میں فیلڈ میں جاکر درختوں کی چوری کو رپورٹ نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک منظم مافیا ہے جو بڑی تکنیک اور مہارت سے درخت کاٹتا ہے۔ کٹے درختوں کی ایک لائن بنائی جاتی ہے جس پر گھی مَل کر اسے چکنا کیا جاتا ہے۔ اس لائن پر دھکیل کر سیکڑوں درخت دوردراز وادیوں سے سڑک تک لائے جاتے ہیں پھر انہیں ٹریکٹر اور جیپ کے ذریعے ڈپو پہنچایا جاتا ہے۔ وہاں سے ٹرکوں پر لاد کر ان درختوں کو اسلام آباد کے قریب واقع ترنول منڈی، درگئی، ملاکنڈ اور ایبٹ آباد کی حویلیاں منڈی تک پہنچایا جاتا ہے جہاں سے ان کی ترسیل ملک کے دوسرے شہروں تک ہوتی ہے۔ ان منڈیوں میں دیار کا درخت 8 سے 10 ہزار روپے فٹ کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔
وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کا مؤقف
آلودگی اور درختوں کی بے دریغ کٹائی کے حوالے سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ نگران وزیر دوسری وزارت میں مصروفیت کی وجہ سے جواب نہیں دے سکتے۔ وزارت کے افسر شعبہ تعلقات عامہ کی وساطت سے سیکریٹری کو سوال نامہ بھیجا تو ایک ہفتہ تک متعدد یاد دہانیوں کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حرف آخر
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جس سے انسانی صحت پر مہلک اثرات رونما ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے جہاں وفاقی حکومت کو ایک مربوط منصوبے کے ذریعے ٹریفک اور صنعت سے نکلنے والے زہریلے دھویں پر قابو پانا ہوگا وہیں نمائشی شجرکاری مہمات کی حوصلہ شکنی کرکے حقیقی شجرکاری کو فروغ دینا ہوگا۔
لیکن یہ تمام کام حکومت اکیلے نہیں کرسکتی۔ میڈیا اور غیرسرکاری تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں اس حوالے سے شعور اور آگہی پیدا کریں۔ اگر حکومتوں نے اس مسئلے پر فوری توجہ نہیں دی اور آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی چلی گئی تو خدشہ ہے کہ مستقبل میں کہیں آلودگی ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نہ بن جائے۔
صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔