اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے اور ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں فرد جرم کی کارروائی کے خلاف اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت کی جہاں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر پیش ہوئے اور عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر عائد اعتراضات دور کیے۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو بعد ازاں سنایا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی ٹی آئی کو شفاف ٹرائل کا حق دینے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ ضمانت کی درخواست پر دلائل دینے کے لیے مجھے 10 روز لگے، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے مجھے بھی اسی وجہ سے 10 دن لگے، میں نے آپ کو کہا تھا اس قسم کا معاملہ پہلی دفعہ سامنے آیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ دونوں طرف سے اچھے طریقے سے دلائل دیے گئے تھے، اس لیے مجھے بھی فیصلے میں وقت لگ رہا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چالان کی کاپیاں تقسیم ہونے کے 6 دن بعد ہی میرے موکل پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ سائفر نہ تو چالان، نہ ہی کیس فائل کا حصہ ہے، پورا کیس سائفر کے گرد گھوم رہا ہے لیکن وہ اس کا حصہ ہی نہیں، دوسری طرف کل یہ تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
سلمان صفدر نے عدالت سے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ ریلیف دیا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ تین چیزوں کو نظر انداز کر دیا گیا، سیکرٹ گرفتاری ہوئی، سیکرٹ ریمانڈ ہوا، چھٹے دن چارج فریم ہو گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں درخواست مسترد کردی اور ہدایت کی کہ درخواست گزار کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔
خیال رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے 23 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی تھی۔
سماعت کے دوران سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ پر جرم عائد کی گئی جبکہ دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔
عدالت نے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے 27 اکتوبر کو گواہان کو طلب کر لیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی فرد جرم غیرقانونی قرار دینے کی درخواست
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے خصوصی عدالت کا فیصلہ 25 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ فرد جرم غیر قانونی قرار دی جائے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت عالیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خصوصی عدالت یا ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ طلب کرکے کسی بھی کیس کا معائنہ کر سکتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہونے والے ٹرائل اور فرد جرم عائد کرنے کے طریقہ کار سے پریشان ہیں۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں فرد جرم کے خلاف دائر درخواست میں کہا تھا کہ درخواست گزار ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، جن کے خلاف غداری، توشہ خانہ، اشتعال انگیز تقاریر، دہشت گردی سمیت تقریباً 40 مقدمات درج ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ مذکورہ جعلی مقدمات میں ناکامی کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ممنوعہ پارٹی فنڈنگ میں بھی عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئی اور پھر سائفر کیس کا سہارا لیا۔
عدالت سے کہا گیا تھا کہ مسلسل سیاسی انتقامی کارروائی کے پیش نظر ایف آئی اے کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم خان کے خلاف جعلی اور من گھڑت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مؤقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار توشہ خانہ ریفرنس میں پہلے ہی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور ’سیکیورٹی خدشات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے وکلا اور اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے کہا تھا کہ غیرقانونی حربے اس بات سے ظاہر ہوتے ہیں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ عوامی آگاہی سے ہٹ کر بند دروازوں کے پیچھے چلایا جا رہا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ کیس کی سماعت کرنے والے جج سراسر جلد بازی کر رہے ہیں، فیئر ٹرائل اور پروسیجر پر مفاہمت کر رہے ہیں اور سنگین اعتراضات پر مبنی درخواستیں دائر کرنے کے باوجود ملزم کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت فرد جرم عائد کیا جو کہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کی ’سیکرٹ گرفتاری‘ اور ’سیکرٹ ریمانڈ‘ اور جلدی سے فرد جرم عائد کرنا واضح طور پر غلط نکتہ نظر کی عکاسی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جج نے اہم دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی میں چیئرمین پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کرکے بہت بڑا غیرقانونی کام کیا ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیر قانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔