ورلڈ کپ میں پاکستان کی پے درپے شکستیں، آخر مسئلہ کیا ہے؟
ورلڈ کپ میں افغانستان کے خلاف میچ میں 8 وکٹوں سے شکست کے بعد پاکستان کی ایونٹ کے سیمی فائنل تک رسائی پر ایک بار پھر گہرے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
ٹورنامنٹ کے ابتدائی دونوں میچوں میں کامیابی کے بعد قومی ٹیم کو لگاتار تین شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا جس کے بعد گرین شرٹس ایونٹ میں مشکلات سے دوچار ہیں۔
آئیے، بابر اعظم الیون کو عالمی کپ میں درپیش تین مشکلات پر نظر دوڑاتے ہیں۔
ورلڈ کلاس باؤلنگ اٹیک کی ناکامی
ایشیا کپ سے قبل پاکستان کے باؤلنگ اٹیک کو ورلڈ کلاس قرار دیا جا رہا تھا اور جب بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے میچ میں پاکستانی باؤلنگ نے بھارتی ٹیم کو 266 رنز پر محدود کردیا تو ماہرین نے اسے ورلڈ کپ میں تمام ٹیموں کے لیے انتباہ قرار دیا تھا۔
تاہم پھر صورت حال یکدم بدل گئی اور اسی ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم نے سپر 4 راؤنڈ میں پاکستان کے خلاف دو وکٹوں کے نقصان پر 356 رنز بنا کر اس باؤلنگ لائن کی قلعی کھول دی جہاں اس میچ میں ویرات کوہلی اور لوکیش راہُل نے سنچریاں بنائی تھیں۔
پھر ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم 128 رنز پر ڈھیر ہو کر بھارت کے خلاف 228 رنز کی اب تک کی سب سے بڑی شکست سے دوچار ہو گئی۔
قومی ٹیم کو عالمی کپ سے محض دو ہفتے قبل اس وقت بڑا دھچکا لگا جب نسیم شاہ کندھے کی انجری کے سبب طویل عرصے کے لیے کرکٹ کے میدانوں سے دور ہو گئے اور ’ورلڈ کلاس باؤلنگ اٹیک‘ بے دانت شیر محسوس ہونے لگا۔
شاہین شاہ آفریدی نے بھارت کے خلاف 5 میچوں میں 10 وکٹیں لے رکھی ہیں لیکن وہ بھارت کے خلاف ورلڈ کپ میچ میں ابتدائی طور کوئی تاثر چھورنے میں ناکام رہے۔
بائیں ہاتھ کے باؤلر نے بھارت کے خلاف 36 رنز کے عوض دو اور آسٹریلیا کے خلاف 54 رنز کے بدلے 5 وکٹیں لیں لیکن دونوں ہی میچوں میں وہ پاکستانی ٹیم کو بڑی شکست سے بچانے میں ناکام رہے۔
اس سے قبل عالمی کپ کے ابتدائی دو میچوں میں بھی ان کی کارکردگی خاطر خوا نہیں رہی تھی اور وہ نیدرلینڈز اور سری لنکا کے خلاف میچوں میں 103 رنز کے دے کر صرف دو وکٹیں لے سکے تھے۔
دوسری جانب حارث رؤف کا مسئلہ بھی انتہائی گمبھیر ہے جو اب تک عالمی کپ کے 5 میچوں میں 286 رنز دے چکے ہیں جبکہ بھارت کی اسپنرز کے لیے سازگار وکٹوں پر پاکستان کے اسپنرز بھی اب تک مکمل طور پر ناکام اور غیرمؤثر رہے ہیں۔
اسپنرز شاداب خان، اسامہ میر، محمد نواز اور افتخار احمد اب تک ورلڈ کپ کے پانچ میچوں میں صرف 6 وکٹیں لے سکے ہیں اور اس کے عوض انہوں نے 502 رنز دیے ہیں۔
قیادت پر سوالیہ نشان
بابر اعظم محدود اوورز کی کرکٹ میں دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک تصور کیے جاتے ہیں اور ورلڈ کپ میں بھی دو نصف سنچریاں بنا چکے ہیں لیکن ان کی کپتانی کے حوالے سے سنگین تحفظات پائے جاتے ہیں بالخصوص میدان میں فیلڈ سیٹ کرتے ہوئے ان کی حکمت عملی جارحیت سے عاری نظر آتی ہے۔
ٹیم کی مسلسل ناکام کارکردگی اور اوسط درجے کی قیادت اور ٹیم سلیکشن کی وجہ سے بابر پر میڈیا میں اکثر ٹیم میں دوستوں کو نوازنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
بابر نے پیر کو افغانستان کے خلاف میچ میں شکست کے بعد کہا کہ جہاں تک قیادت کا تعلق ہے کہ تو مجھ پر یا میری بیٹنگ پر کوئی خاص دباؤ نہیں ہے، میں بیٹنگ میں بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں فیلڈنگ کرتے ہوئے قیادت کے بارے میں اور بیٹنگ کرتے ہوئے صرف بلے بازی کے بارے میں سوچتا ہوں۔
منصوبہ بندی کا فقدان
پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی بے پناہ تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں جہاں ایک سال کے دوران تین چیئرمین آ چکے ہیں جس سے کسی حد تک ورلڈ کپ کی تیاریوں کو دھچکا لگا۔
سابق چیئرمین نجم سیٹھی ماضی کے تجربے کے پیش نظر مکی آرتھر کو بطور ٹیم ڈائریکٹر لے کر آئے لیکن وہ ساتھ ساتھ انگلش کاؤنٹی ڈربی شائر کے لیے بھی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے اور پاکستان ٹیم کی محض آن لائن کوچنگ پر اکتفا کیا۔
ٹیم کی محض برطانیہ سے زوم کے ذریعے آن لائن کوچنگ پر مکی آرتھر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی حکام پر کھلاڑیوں کی فٹنس پر توجہ دینے اور فاسٹ باؤلرز نسیم شاہ اور شاہین کی تینوں فارمیٹ میں ورک لوڈ مینجمنٹ نہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
جب نسیم شاہ عالمی کپ سے باہر ہوئے تو ان کے متبادل محمد حسنین اور احسان اللہ بنتے تھے لیکن وہ دونوں بھی ان فٹ ہیں لہٰذا پاکستان کو حسن علی کو اسکواڈ میں شامل کرنا پڑا۔
قومی ٹیم کے سابق عظیم فاسٹ باؤلر اور کپتان وسیم اکرم نے کہاکہ آپ ایک کوچ تک نہ ڈھونڈ سکے اور کیونکہ آپ کو غیرملکی کوچز پسند تھے اس لیے آپ نے آن لائن کوچ بھرتی کر لیا، ہم نے نظام میں تبدیلیاں کیں اور یہی چیز ورلڈ کپ میں ہماری کارکردگی کی عکاس ہے۔