پاکستان ’غیر متوازن‘ آبی چکر کے شکار ممالک میں شامل
عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے پاکستان کو 2022 میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ’غیر متوازن‘ ہائیڈرولوجیکل سائیکل سے متاثرہ ممالک میں شامل قرار دیتے ہوئے بہتر نگرانی کے لیے بنیادی پالیسی میں تبدیلی پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ’اسٹیٹ آف گلوبل واٹر ریسورسز 2022 رپورٹ‘ کے عنوان سے ڈبلیو ایم او کی شائع کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں 50 فیصد سے زیادہ عالمی کیچمنٹ ایریاز میں دریاؤں کی معمول کی ڈسچارج کنڈیشن میں تبدیلی دیکھی گئی, جب کہ پانی کے ذخائر کے بہت کم حصے میں معمول سے زیادہ یا بہت زیادہ اوپر کی نارمل کنڈیشنز دیکھی گئیں۔
تیسرا قطب جو تبتی سطح مرتفع، ہمالیہ، قراقرم، ہندو کش، پامیر اور تیان شان پہاڑوں پر محیط ہے، تقریباً دو ارب لوگوں کی پانی کی فراہمی کے لیے بہت ضروری ہے، 2000 سے 2018 تک مجموعی گلیشیرز میں 4 فیصد برف میں قابل ذکر کمی اور برفانی جھیلوں کے حجم میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
اس نے دریائے سندھ، آمو دریا، دریائے یانگتسی اور ییلو ریور کے بہاؤ میں اضافہ کیا ہے جس سے خطے پر موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں دریائے سندھ کے علاقے میں آنے والے بڑے سیلاب سے کم از کم ایک ہزار 700 افراد جاں بحق ہوئے، 3 کروڑ لوگ متاثر ہوئے جب کہ ایک اندازے کے مطابق 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
سال کے شروع میں ہیٹ ویو کے باعث گلیشیئرز پگھلنے سے دریا میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا جس میں شدید مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے مزید اضافہ ہوگیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2022 کے دوران مٹی کی نمی اور بخارات میں بے ضابطگیوں نے دریا کے اخراج کے حالات کو متاثر کیا، گرمی کی شدید لہر اور خشک سالی کی وجہ سے یورپ نے گرمی کے دوران بخارات میں اضافہ اور مٹی کی نمی اور دریا کے بہاؤ میں کمی دیکھی۔
رپورٹ کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی اور انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہائیڈرولوجیکل سائیکل توازن سے باہر نکل رہا ہے۔
خشک سالی اور شدید بارشیں زندگی اور معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہیں، پگھلتے گلیشیئرز نے سیلاب جیسے خطرات کو بڑھا دیا ہے اور لاکھوں لوگوں کے لیے پانی تحفظ سے متعلق طویل مدتی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سیکریٹری جنرل نے ایک بیان میں کہا کہ ایک طرف ہم بہت زیادہ بارشیں اور سیلاب دیکھ رہے ہیں اور اس کے برعکس بہت زیادہ بخارات، خشک زمین اور زیادہ شدید خشک سالی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نگرانی، ڈیٹا شیئرنگ، سرحد پار تعاون اور آبی وسائل کا جائزہ بہتر ہونا چاہیے اور اس کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ ہونا چاہیے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ یہ طریقہ کار معاشرے کو پانی کی بہت زیادہ کمی اور بہت زیادہ اضافے کے باعث سامنے آنے والے مسائل سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔