سندھ : ایس ایچ او، بیٹے سمیت 5 پولیس اہلکار اغوا
خانپور کے کچے کے علاقے میں واقع کوٹ شاہو تھانے پر بدھ کی علی الصبح بدھانی جتوئی گینگ سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد مسلح ڈاکوؤں نے دھاوا بول کر اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) اور ان کے بیٹے سمیت 5 پولیس اہلکاروں کو اغوا کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے اہلکاروں کے اغوا کی تصدیق کی جب کہ علاقے سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں نے عمارت میں گھسنے سے قبل تھانے کو گھیرے میں لیا۔
مغوی اہلکاروں میں ایس ایچ او محبوب بروہی، ان کا زیر تربیت پولیس اہلکار بیٹا محمد علی، ہیڈ محرر نعیم گوپانگ، اہلکار جان محمد بکھرانی اور ایاز کمبھر شامل ہیں۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اغوا کار اہلکاروں کو شکارپور کے علاقے کوٹ شاہو سے ملحقہ کچے کے علاقے لے گئے۔
واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی لاڑکانہ رینج جاوید جسکانی نے ایس ایس پی شکارپور کو بدھانی جتوئی گینگ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی، انہوں نے کہا کہ پولیس کو یرغمال اہلکاروں کی بازیابی کے لیے جتوئی گینگ کے گاؤں میں ڈیرے ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ایس ایس پی شکارپور خالد مصطفی کورائی کی سربراہی میں یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے لیے مختلف تھانوں کے اہلکاروں پر مشتمل دستہ کوٹ شاہو کے کچے کے علاقے پہنچ گیا ہے۔
ڈی آئی جی جاوید جسکانی نے یرغمالیوں کی جلد بازیابی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور رینجرز نے کچے کے علاقے میں کیمپ قائم کیے ہیں اور چار سے پانچ مشتبہ افراد کو پکڑ لیا ہے۔
شکارپور پولیس ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ڈاکوؤں نے مہر بدھانی جتوئی کی رہائی کے لیے پولیس پر دباؤ ڈالنے کے لیے اہلکاروں کو اغوا کیا، مہر بدھانی جتوئی کو ایس ایچ او زاہد ابڑو نے قمبر شہداد کوٹ سے گرفتار کیا تھا۔
ذرائع نے کہا کہ زاہد ابڑو نے چند روز قبل سکھر کے ہیرا ہسپتال سے مہر بدھانی کو گرفتار کیا تھا اور ڈاکوؤں نے جوابی اقدام کرتے ہوئے ایس ایچ او سمیت پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا۔
ڈاکو 2 ایل ایم جیز، 7جی تھری گنز، 3 ایس ایم جیز، 2 موٹر سائیکلوں کے علاوہ ہزاروں گولیاں بھی لے اڑے، دسمبر 2022 میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں مطابق بدھانی جتوئی کو پکڑنے پر 50 لاکھ روپے کی انعامی رقم کا اعلان کیا گیا تھا، پولیس ذرائع نے بتایا کہ 2022 میں بالائی سندھ میں اسی طرح سے تقریباً ایک درجن پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
دوسری جانب، نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مغوی پولیس اہلکاروں کی بازیابی کے لیے تین دن کی مہلت دی۔
انہوں نے تھانے کو محفوظ بنانے اور پولیس کو تحفظ دینے میں ناکامی پر متعلقہ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سے وضاحت بھی طلب کرلی۔
واقعہ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اضلاع میں کمانڈ کرنے والے پولیس افسران اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔