• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm

پاک-بھارت ٹاکرا: کیا پاکستان شکست کی روایت کو توڑ سکے گا؟

اگرچہ پاکستان نے فخر زمان کو بینچ پر بٹھا کر اور عبداللہ کو موقع دے کر اپنی دیرینہ پریشانی سے کسی حد تک نجات حاصل کرلی ہے لیکن احمدآباد میں یہ میچ پاکستان کے لیے اعصاب کی جنگ ہوگا۔
شائع October 13, 2023

اگر ورلڈکپ کے تمام میچز ایک جانب اور پاک-بھارت میچ دوسری جانب رکھا جائے تو ترازوکا پلڑا پھر بھی پاک-بھارت میچ کی طرف جھکے گا۔ 14 اکتوبر کو جب دونوں ٹیمیں احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں آمنے سامنے آئیں گی تو ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر سے 30 کروڑ افراد ٹی وی پر یہ میچ دیکھیں گے جبکہ ایک لاکھ 32 ہزار کے قریب تماشائی اسٹیڈیم میں موجود ہوں گے۔ اس میچ کے تمام ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں جبکہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو اس ہائی وولٹیج میچ کا شدت سے انتظار ہے۔

پاکستان اور بھارت اس سے قبل 12 ورلڈکپ میں 7 بار آمنے سامنے آچکے ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان نے ہر بار شکست کا سامنا کیا ہے۔ ورلڈکپ کا آغاز تو 1975ء میں ہوا ہے لیکن پاکستان اور بھارت کا سامنا 1987ء تک کھیلے گئے چاروں ورلڈکپ میں نہیں ہوسکا تھا۔

ورلڈکپ 1992ء

آسٹریلیا میں کھیلے گئے اس ورلڈکپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سڈنی میں مقابلہ ہوا۔ پاکستان اس ورلڈکپ میں ابتدا میں کافی مشکلات کا شکار تھا اور اس عالمی کپ میں لگاتار اپنے تین میچ ہار چکا تھا لیکن بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم کو امید تھی کہ نتیجہ ان کے حق میں نکلے گا۔ اس میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بھارت 216 رنز بنا سکا تھا۔ سچن ٹنڈولکر نے نصف سنچری اسکور کی تھی جبکہ پاکستان کی بیٹنگ اس میچ میں مکمل طور پر ناکام رہی اور 173 رنز پر ہی پوری ٹیم ڈھیر ہوگئی۔

  پاک بھارت میچ کا اسکور کارڈ—تصویر: یوٹیوب/اسکرین شاٹ
پاک بھارت میچ کا اسکور کارڈ—تصویر: یوٹیوب/اسکرین شاٹ

ورلڈکپ 1996ء

1996ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی مشترکہ طور پر پاکستان اور بھارت نے کی تھی۔ دونوں میزبانوں کا مقابلہ بنگلور میں کوارٹر فائنل میچ میں ہوا تھا۔ پاکستان ٹیم کے کپتان وسیم اکرم اس میچ میں شرکت نہیں کرپائے تھے اور ان کی جگہ عامر سہیل نے ٹیم کی کپتانی کی تھی۔

بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 287 رنز بنائے تھے جس میں نوجوت سنگھ سدھو کی 93 رنز کی اننگز شامل تھی تاہم میچ کاسب سے خطرناک موڑ وقار یونس کا آخری اوور تھا جس میں اجے جڈیجا نے 22 رنز بناکر پہاڑ کی مانند ہدف کھڑا کردیا تھا۔

پاکستان کا آغاز بھی جارحانہ تھا عامر سہیل اور سعید انور نے پہلے 10 اوورز میں 84 رنز بناکر فتح کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن بعد میں آنے والے بلے بازوں کی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی کی وجہ سے پاکستان یہ بازی ہار گیا۔ یہ میچ لیجنڈری کرکٹر جاوید میانداد کے کریئر کا آخری میچ تھا جس میں وہ 39 رنز بناکر رنز آؤٹ ہوگئے تھے۔ پاکستان یہ میچ 39 رنز سے ہی ہار گیا تھا۔

ورلڈ کپ 1999ء

انگلینڈ میں کھیلے گئے اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم بہت اچھی فارم میں تھی۔ ٹیم متوازن تھی اور جارحانہ کرکٹ کھیل رہی تھی۔ مانچسٹر میں کھیلے گئے پاک-بھارت میچ میں سب کو پاکستان کی یکطرفہ جیت کا یقین تھا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے محض 227 کا ہدف دیا جسے حاصل کرنا آسان سمجھا جارہا تھا۔ وسیم اکرم کی باؤلنگ عمدہ رہی لیکن پاکستان کی بیٹنگ ایک بار پھر دھوکا دے گئی اور ٹیم صرف 180 رنز بناکر ہی آؤٹ ہوگئی۔

اس میچ میں بلے بازوں کی کارکردگی کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جارہے تھے کیونکہ اسی بلے بازی کی وجہ سے پاکستان اس ٹورنامنٹ کی کمزور ترین ٹیم بنگلادیش سے غیرمتوقع شکست کھاچکا تھا۔

ورلڈ کپ 2003ء

جنوبی افریقہ اور زمبابوے میں ہونے والا ورلڈکپ بھی پاکستان کی بھارت سے ہار کے سلسلے کو نہیں روک پایا۔ سنچورین کے مقام پر کھیلے گئے میچ میں پاکستان کو کسی بھی ورلڈ کپ ایڈیشن میں بھارت کے خلاف پہلے بیٹنگ کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان نے بھارت کو 273 رنز کا ہدف دیا جس میں سعید انور کی 101 رنز کی اننگز شامل تھی۔ یہ سعید انور کے کریئر کی آخری اور سُست ترین سنچری تھی۔

بہترین بیٹنگ پچ ہونے کے باوجود پاکستان کا کوئی اور بلے باز نہ چل سکا اور بھارت کو بڑا ہدف نہیں دیا جاسکا۔ بھارت نے اس میچ میں جارحانہ بیٹنگ کی۔ سچن ٹنڈولکر کے 98 اور یوراج سنگھ کے 50 رنز کی شاندار بیٹنگ کی وجہ سے پاکستان کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے ساتھ ہی وسیم اکرم اور وقار یونس نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔

ورلڈکپ 2011ء

ورلڈکپ 2007ء میں پہلے راؤنڈ میں ہی شکست کے باعث پاکستان کو بھارت کے خلاف میچ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ تاہم 2011ء کے ورلڈ کپ میں دونوں ٹیمیں سیمی فائنل میں آمنے سامنے آئیں۔

موہالی کے گراؤنڈ میں ایک بار پھر پاکستان فتح کے قریب پہنچ کر ہار گیا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 260 رنز کا ہدف دیا۔ سچن ٹنڈولکر نے 85 رنز بنائے۔ ان کے ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہونے کے بعد ریویو میں بچ جانے کا بہت شور ہوا کیونکہ گیند واضح طور پر وکٹ میں جارہی تھی۔

اس میچ میں پاکستان کی بیٹنگ کا آغاز بھی اچھا تھا محمد حفیظ اور اسد شفیق نے تین وکٹوں کے نقصان پر اسکور 103 تک پہنچادیا تھا لیکن بعد میں آنے والے بلے باز اسکور 231 تک ہی لے جاسکے اور پاکستان سیمی فائنل میں 29 رنز سے ہار گیا۔

ورلڈکپ 2019ء

یہ ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی 7ویں شکست تھی۔

انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈکپ میں پاکستان کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ مانچسٹر میں کھیلا گیا۔ 50 ہزار تماشائیوں کے سامنے بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 336 رنز بنائے۔ اوپنر روہت شرما نے 140 رنز بناکر پاکستان کے لیے پہاڑ جیسا ہدف طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی جارحانہ بیٹنگ نے پاکستانی باؤلنگ کے چھکے چھڑادیے تھے جبکہ جواب میں پاکستان کی بیٹنگ بھی تتر بتر رہی۔ بارش کے باعث جب اوورزکم ہوئے تو پاکستان کو 40 اوورز میں 302 رنز کا ہدف ملا جو اس سے عبور نہ ہوسکا اور پاکستان مقررہ 40 اوورز میں 212 رنز ہی بناسکی۔

تو یہ تھی ورلڈ کپ میں پاک-بھارت میچوں کی تاریخ۔ پاکستان14 اکتوبر کو 8ویں بار بھارتی ٹیم کو سامنا کرے گا۔ بھارتی ٹیم نے حال ہی میں ایشیا کپ جیتا ہے اور وہ رواں ورلڈکپ میں آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو یکطرفہ طور پر شکست بھی دے چکی ہے۔ ویرات کوہلی اچھی فارم میں نظر آرہے ہیں لیکن بھارت کے کامیاب بلے باز شبھمن گل ڈینگی بخار میں مبتلاہونے کے باعث بھارتی ٹیم سے باہر ہیں اور احمد آباد میچ میں بھی ان کی شرکت کا امکان کم ہے۔

بھارتی ٹیم کا کمبینیشن اس وقت بہت عمدہ ہے۔ کے ایل راہول نے آسٹریلیا کے خلاف 97 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی فارم کا اعلان کردیا ہے۔ باؤلنگ میں جسپریت بمرا اور کلدیپ یادو بہت عمدہ ردھم میں نظر آرہے ہیں۔ بھارت کی ٹیم چونکہ دو میچ جیت کر احمدآباد کے میدان میں اترے گی اس لیے اس کا مورال بہت بلند ہے۔

دوسری طرف پاکستان نے سری لنکا کے خلاف 345 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف حاصل کرکے بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جیت میں بابراعظم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کی شاندار سنچریوں نے یقینی طور پر بھارتی کیمپ کو پریشان کردیا ہوگا۔ ان دونوں کی بیٹنگ نے بابر پر بوجھ بھی کم کردیا ہے۔ پاکستان نے فخر زمان کو بینچ پر بٹھا کر اور عبداللہ شفیق کو موقع دے کر اپنی دیرینہ پریشانی سے کسی حد تک نجات حاصل کرلی ہے لیکن دوسرے اوپنر امام الحق متاثر کُن کارکردگی پیش نہیں کرپائے ہیں۔

  رضوان اور عبداللہ شفیق کی کارکردگی نے بھارتی کیمپ کو پریشان کردیا ہوگا—تصویر: اے ایف پی
رضوان اور عبداللہ شفیق کی کارکردگی نے بھارتی کیمپ کو پریشان کردیا ہوگا—تصویر: اے ایف پی

پاکستان کی باؤلنگ البتہ اپنے رنگ کے خلاف نظر آرہی ہے۔ شاہین شاہ کو ابھی تک ردھم نہیں مل سکی ہے۔ حسن علی اگرچہ وکٹ لے رہے ہیں لیکن رنز بھی بہت دے رہے ہیں۔ حارث رؤف کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے وہ بلے بازوں کو روکنے میں ناکام ہیں۔

اسپن باؤلنگ کے شعبے کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ شاداب خان آؤٹ آف فارم ہیں جبکہ محمد نواز بھی کچھ زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔ افتخار احمد آل راؤنڈر کا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں ان کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی ہے۔

بھارت کے خلاف پاکستان یقینی طور پر وہی ٹیم کھلائے گا جس نے سری لنکا کے خلاف میچ کھیلا تھا لیکن اس میچ میں دونوں ٹیموں کو اپنی کارکردگی سے زیادہ اپنے حواس مجتمع رکھنا مشکل ہوں گے۔ ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کے سامنے کھلاڑیوں کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنا ہوگا۔

  دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم، نریندرا مودی اسٹیڈیم—تصویر: رائٹرز
دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم، نریندرا مودی اسٹیڈیم—تصویر: رائٹرز

احمدآباد کی پچ بظاہر بیٹنگ پچ ہوگی لیکن گرم موسم کے باعث ریورس سوئنگ کا امکان ہے اس لیے اسپنرز کو بھی خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے لیکن دوسری اننگز میں بیٹنگ آسان ہوگی کیونکہ پچ مکمل طور پر سوکھ چکی ہوگی۔ خیال یہی ہے کہ یہ ایک ہائی اسکورنگ میچ ہوگا۔

پاکستان اور بھارت کے اس میچ پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوں گی اور یہی میچ ورلڈکپ کی سمت بھی متعین کرسکتا ہے۔ دونوں ٹیمیں متوازن ہیں جبکہ ان میں باصلاحیت کھلاڑی شامل ہیں لیکن سب کا ایک ہی سوال ہے کہ کیا بھارت کی جیت اور پاکستان کی ہار کی روایت برقرار رہے گی یا پھر رواں ورلڈکپ اس روایت کو احمدآباد میں دفن کردے گا۔

البتہ جیت جس کی بھی ہو، کرکٹ کے بھارتی شائقین کو ماضی کے برعکس اپنا مثبت رویہ دکھانا ہوگا۔ کرکٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کو کسی جلاؤ گھیراؤ کی بنیاد کہا جائے۔

احمدآباد کا نریندر مودی اسٹیڈیم جسے دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہاں ہفتے کو فیصلہ ہوجائے گا کہ کس کے پٹاخے چلیں گے اور کس کے رکھے رہ جائیں گے ۔

سید حیدر

لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔