ایران: میٹرو میں نوجوان لڑکی پر حملہ، مغربی ممالک کا اظہار تشویش
ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ حملے کے نتیجے میں نوجوان لڑکی کے کومہ میں جانے کے بعد مغربی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ جرمنی کے سفارتکار نے اس واقعے کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق انسانی حقوق کے گروپ نے بھی تہران میٹرو میں ہونے والے تصادم کی عالمی سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا، یہ واقعہ مہسا امینی کی زیر حراست موت کے ایک برس بعد سامنے آیا ہے، جنہیں مبینہ طور پر خواتین کے لیے مخصوص ڈریس کوڈ کی خلاف وزری پر گرفتار کیا گیا تھا۔
رائٹس گروپ ہینگا کے مطابق 16 سالہ ارمیتا گاروند پر اتوار کو خواتین پولیس افسران نے حملہ کیا تھا۔
ایرانی حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ کم بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی، اور اس واقعے میں سیکیورٹی فورسز کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
ایرانی حکام 16 ستمبر کو مہسا امینی کی برسی کے موقع پر ہائی الرٹ رہے تاکہ تناؤ کی کوئی صورتحال نہ پیدا ہو، گزشتہ برس ان کی موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور خواتین نے ایران کے نظام حکومت کو کھلا چیلنج کرتے ہوئے دوران احتجاج اپنے اسکارف بھی پھاڑ دیے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کئی ماہ تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں 551 افراد کی ہلاکت اور 22 ہزار افراد کی گرفتاری کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں یہ تحریک دم توڑ گئی تھی، جس کی وجہ سے 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ایک بار پھر ایران میں ایک نوجوان لڑکی اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے، صرف اس لیے کہ انہوں نے سب وے پر اپنے بال ظاہر کر دیے، مزید کہا کہ ’یہ ناقابل برداشت ہے‘
ایران کے لیے امریکا کے قائم مقام خصوصی ایلچی ابرام پالے نے ایکس پر لکھا کہ واشنگٹن کو ان رپورٹس پر دکھ اور تشویش ہے کہ ایران میں نام نہاد اخلاقی پولیس نے ایک نوجوان لڑکی پر حملہ کیا۔
ابرام پالے نے مزید کہا کہ ہم ان کی صحت کے حوالے سے خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ہم ایران کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس زیادتیوں پر تہران کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے دنیا کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
اس معاملے کی مبینہ ویڈیو کی گردش کے ساتھ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں بظاہر پولیس اہلکار میٹرو میں نوجوان لڑکی ارمیتا گاروند کو مبینہ طور دکھا دے رہی ہیں اور بعد ازاں، انہیں باہر کھینچا جا رہا ہے۔
’جبر‘
ناروے میں مقیم این جی او ایران ہیومن رائٹس نے زور دیا ہے کہ ایک غیر جانبدار عالمی سطح کی تحقیقات کی جائیں تاکہ واقعے کی تفصیلات سامنے آسکیں، اور الزام عائد کیا کہ تہران کی اپنے جرائم کے ثبوتوں کو چھپانے اور حقائق کو مسخ کرنے کی طویل تاریخ ہے۔
گروپ کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے بتایا کہ اسلامی ملک نے خواتین کو ہراساں اور جبر کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔
ہینگا نے بتایا کہ ارمیتا گاروند کا علاج تہران کے فجر ہسپتال میں سخت سیکیورٹی میں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے تصویر جاری کرتے ہوئے کہا کہ ارمیتا گاروند ہسپتال کے بستر پر ہیں، انہیں خوراک کی نالی لگائی گئی ہے جبکہ ان کے سر اور گردن پر بھاری پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔
ہینگا نے بتایا کہ ان کے والدین نے ایران کے سرکاری میڈیا کو ہسپتال میں ’شدید دباؤ‘ اور اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی افسران کی موجودگی میں انٹرویو دیا۔
اینالینا بیرباک نے کہا کہ اہل خانہ کو کیمروں کے سامنے نہیں بلکہ اپنی بیٹی کے بستر کے قریب بیٹھنے کا حق ہے۔
ہینگا نے بتایا کہ تہران کی رہائشی ارمیتا گاروند کا تعلق ایران کے کرد آبادی والے شہر کرمانشاہ سے ہے۔
ہینگا نے کہا کہ شارگ روزنامہ کی ایک صحافی مریم لطفی نے واقعے کے بعد ہسپتال جانے کی کوشش کی لیکن انہیں فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔