• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

عثمان ڈار کا پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان، ’9 مئی حملوں کا مقصد آرمی چیف کو ہٹانا تھا‘

شائع October 4, 2023 اپ ڈیٹ October 5, 2023
عثمان ڈار نے پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا—فوٹو: اسکرین گریب
عثمان ڈار نے پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا—فوٹو: اسکرین گریب

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار نے سیاست اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ریاست مخالف بیانیے کی حمایت کرتے تھے اور 9 مئی کو ہونے والے حملوں کا مقصد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ’ہٹانا‘ تھا۔

دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دا فرنٹ ود کامران شاہد‘ میں گفتگو کرتے ہوئے عثمان ڈار نے کہا کہ ’مجھے آج سے 12 سال پہلے تحریک انصاف کا پلیٹ فارم ایسا لگا کہ جس میں صاف ستھری سیاست ہوسکتی تھی اور لاکھوں نوجوان عمران خان سے متاثر ہو کر پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن گئے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’9 مئی ایک ایسا شرم ناک سانحہ ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور وہ ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے، جس سے دھلنے میں اب وقت لگے گا اور اس بات پر زور دینا پڑے گا کہ وہ مائنڈسیٹ جو پارٹی کے اندر مزاحمت کر رہا تھا اور پھر تنصیبات اور اداروں پر حملے ہوئے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’9 مئی کا واقعہ ایک دن میں رونما نہیں ہوا، یہ رجیم چینج آپریشن کے بعد مرکز میں ہماری حکومت چلی گئی تو پاکستان تحریک انصاف دو مائنڈ سیٹ بنے، جن میں سے ایک جس میں مراد سعید، اعظم سواتی، حماد اظہر اور فرخ حبیب تھے، جو ٹکراؤ کی سیاست کی حمایت کرتے تھے‘۔

عمران خان کا 9 مئی کے واقعات میں کردار کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا مائنڈ سیٹ ہے، جس میں اسد عمر، عمر ایوب، علی محمد خان اور شفقت محمود تھے، جو مفاہمت کے راستے کی بات کرتے تھے اور عمران خان مراد سعید اور دوسروں کے ٹکراؤ کے مائنڈ سیٹ کی زیادہ حمایت کرتے تھے اور وہ فرنٹ لائنرز کو پسند کرتے ہیں‘۔

پی ٹی آئی کے اندر ٹکراؤ کی بات کرنے والے گروپ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہاں تک بات کی گئی کہ دباؤ میں لانے کے لیے اگر ہمیں ریاستی اداروں کے اوپر حملہ کرنا پڑتا ہے تو اس کو مدنظر رکھا جائے اور عمران خان کی موجودگی میں یہ تبادلہ خیال ہوتا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس دوران لانگ مارچ بھی آیا اور دیگر چیزیں بھی آئیں، اس گروپ کا بیانیہ پارٹی کے اندر سرایت کرتا جا رہا تھا اور عمران خان اس پالیسی کو سپورٹ بھی کر رہے تھے‘۔

’کارکنوں کی ذہن سازی ہوئی تھی عمران خان کی گرفتاری ہوگی‘

عثمان ڈار نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ 9 مئی کے لیے عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے کبھی پنجاب اور کبھی خیبرپختونخوا سے کارکنوں کو بلایا جاتا تھا، مقصد ہیومن شیلڈ کرنا تھا، عمران خان کی ہدایات بھی شامل تھیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وہاں کارکن جمع ہوجاتے تھے اور خیمے لگ گئے تھے، مجھ سمیت کارکن ذہن بنا بیٹھے تھےکہ عمران خان گرفتار ہوجائے گا اور گرفتاری منفرد چیز بن چکی تھی، اس کے لیے ڈیوٹیاں اور دن تک مقرر کیے جاتے تھے‘۔

سوال کیا گیا کہ کیا اس سب کا مقصد یہی تھا کہ عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کے لیے کچھ بھی کیا جائے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایک سوچ ایسی تھی کہ کسی سطح پر عمران خان کی گرفتاری ہوتی ہے تو آپ نے دیکھا جوڈیشل کمپلیکس میں کیا ہوا، زمان پارک کے باہر کیا ہوا اور چیزیں بنتی جا رہی تھیں اور کارکنوں کی ذہن سازی ہوئی کہ ہم نے عمران خان کی گرفتاری نہیں ہونے دینی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کے اندر جس مائنڈ سیٹ کی بات کر رہا ہوں، یہ ریاست مخالف بیانیہ جس سے سپورٹ عمران خان کر رہے تھے اور وہ بن گیا تھا، عمران خان نے ریاست مخالف بیانیہ بنایا، جنرل باجوہ سے شروع کیا اور کرتے کرتے جنرل عاصم منیر تک آگئے‘۔

عثمان ڈار نے کہا کہ ’کوئی بھی آرمی چیف ہو ان کو ریٹائر ہونا ہے، جیسے آج جنرل باجوہ نہیں ہے اور ان کی جگہ جنرل عاصم منیر ہے لیکن ادارہ وہی ہے اور ادارے کی عزت ہے، اگر ہم ادارے کے اوپر حملہ آور ہوجائیں تو پھر ملک کی بقا کا سوال ہے اور یہی چیز آتی ہے پھر لانگ مارچ ہوا‘۔

’لانگ مارچ کا مقصد جنرل عاصم منیر کی تعیناتی روکنا تھا‘

ان سے سوال کیا گیا کیا لانگ مارچ کا مقصد جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی روکنا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل، تعیناتی کو بھی روکنا تھا پھر پورا ایک مائنڈ سیٹ چلتا آرہا ہے، میرے خیال میں عمران خان کو ادارے کے اندر سے بھی معلومات تھیں کہ لانگ مارچ سے جنرل عاصم منیر نہیں لگائے جائیں گے‘۔

عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ ’9 مئی تو ایک تاریخ ہے، گرفتاری 9 مئی کو ہوئی اور جو عمل چلتا آرہا تھا وہ کسی بھی وقت متوقع تھا‘۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اجلاس میں بات ہوتی تھی کہ گرفتاری کی صورت میں ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونا ہے اور عمران خان کی گرفتاری بھی متوقع تھی اور کارکن زمان پارک کے باہر اکٹھے ہوتے تھے لیکن یہ پتا نہیں تھا کب گرفتار ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’9 مئی کو گرفتاری ہوئی تو مراد سعید اور اعظم خان اور دیگر جو مائنڈ سیٹ تھا وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اگر ہمیں اداروں پر حملہ آور ہونا ہے یا ان کی تنصیبات پر حملہ کرنا ہے تو اس سے دباؤ پیدا ہوسکتا ہے‘۔

عثمان ڈار سے سوال کیا گیا کہ موجودہ آرمی چیف کو نشانہ بنا کر کیا مقاصد حاصل کرنے تھے تو انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ فوج کے اندر کوئی تبدیلی آجائے اور جنرل عاصم منیر پر دباؤ آجائے اور کوئی صورت حال بن جائے اور آرمی چیف کو ہٹنا پڑے گا‘۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر پوری فوج کے اندر سے دباؤ بڑھتا تو جنرل عاصم منیر کو ہٹنا تھااور حکومت تبدیل ہوگی سب کچھ ہوگا‘۔

عثمان ڈار نے کہا کہ اگر پارٹی یہاں تک آئی تو یہ عمران خان کے فیصلوں سے آئی ہے۔

’9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ’9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی بطور جماعت بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، ریاستی اداروں کو نقصان پہنچا ہے لیکن پی ٹی آئی بھی منتشر ہوگئی ہے‘۔

عثمان ڈار نے سیاسی مستقبل سے متعلق سوال پر کہا کہ ’میں نے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے بڑا سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ریاست مخالف، فوج مخالف بیانیہ چل رہا ہے اور میرے لیے اس بیانیے کے ساتھ چلنا مشکل ہے اور نہ ہی میں اس چیز کے لیے سیاست میں آیا ہوں‘۔

’پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور سیاست دونوں کو خیرباد کہہ دوں، میں نے سیاست تحریک انصاف سے شروع کی تھی اور ختم بھی اسی سے کی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے جیسا بندہ اس (سیاست) میں مس فٹ ہے، میں نے عملی طور پر سیاست کو قریب سے دیکھا ہے، ملک میں ایک پٹواری بھی ڈپٹی کمشنر سے مضبوط ہے، سیالکوٹ میں ایک پٹواری کو ہٹوانے کے لیے ڈی سی اور کمشنر گجرانوالا کو بے بس دیکھا‘۔

عثمان ڈار نے کہا کہ ’9 مئی کے واقعے نے پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں، جیلوں میں گئے ہیں، جو بھی ذمہ دار ہے اس کی شناخت ہونی چاہیے اور اس سے نشان عبرت بنانا چاہیے لیکن جو بے گناہ اور بے قصور ہیں اور جیلوں میں ہیں، ان کو بھی انصاف ملنا چاہیے، ان کے خاندان پریشان ہیں‘۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’مجھے پہلے دن پیش کش بھی تھی اور موقع بھی تھا، پریس کانفرنس کرتا اور پی ٹی آئی چھوڑ جاتا لیکن میں نے پورے 5 ماہ ساری صورت حال دیکھی اور محسوس کیا کیونکہ میں براہ راست کسی واقعے میں ملوث نہیں تھا اور میں دیکھ رہا تھا کوئی جگہ بنے گی لیکن نہ وہ جگہ بن رہی ہے اور نہ وہ بنتی نظر آ رہی ہے اور نہ مجھے بظاہر لگتا ہے کہ حالات بہتر ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی یا اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کا جو ٹکراؤ ہے وہ شاید اور مزید آگے جائے لیکن عمران خان کا آج ووٹ بینک موجود ہے، وہ جیل میں ضرور ہیں لیکن ووٹ بینک ہے‘۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ عثمان ڈار کو کراچی میں ملیر کینٹ سے ’نامعلوم افراد نے اغوا‘ کیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جبکہ مقامی پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنما کی گرفتاری کی خبریں مسترد کردی تھیں۔

عثمان ڈار کی والدہ نے بھی ویڈیو پیغام جاری کیا تھا کہ ان کے بیٹے کو اغوا کرلیا گیا ہے اور اغوا کار ان کے بیٹے کے مقام کے بارے میں آگاہ نہیں کر رہے ہیں اور مطالبہ کیا تھا کہ انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع کرسکیں۔

بعد ازاں ان کے بہنوئی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور مؤقف اختیار کیا کہ عثمان ڈار کو 9 ستمبر کو سادہ لباس افراد نے اٹھایا اور بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں لے گئے ہیں۔

ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ عثمان ڈار کی مبینہ اغوا کے حوالے سے اگر کوئی جرم ہوا ہے تو مقدمہ درج کریں۔

تاہم وہ 20 دن کے بعد آج اچانک دنیا ٹی وی کے پروگرام میں نمودار ہوئے اور انٹرویو میں اپنے سیاسی مستقبل اور چیئرمین پی ٹی آئی کے حوالے سے سوالوں کے جوابات دیے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ہمیشہ پاک فوج کو عظیم فوج کہا ہے اور سراہا ہے، 6 مئی کو میں اپنے گھروالوں سےملنے گیا تھا اور 9 مئی والا واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے تھا۔

بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، پی ٹی آئی کا ردعمل

عثمان ڈار کے انٹرویو کے ردعمل میں پی ٹی آئی نے کہا کہ جبری طور پر لاپتا کیے گئے رہنما کی منظرعام پر اچانک آمد اور انٹرویو نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ 24 روز تک نامعلوم اغوا کاروں کی حراست میں گزارنے کے بعد عثمان ڈار کی ایک نجی ٹی وی چینل پر رونمائی بلاشبہ خود اغوا کاروں کو بےنقاب کرتی ہے۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ 9 مئی کے 5 ماہ بعد 24 روزہ جبری گمشدگی کے بعد دیے گئے انٹرویو کی عوام کی نگاہ میں کوئی اہمیت ہے نہ ہی اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔

مزید کہا گیا کہ خدشہ ہے کہ اسی قسم کے ہتھکنڈے ہمارے دیگر اغوا کنندگان بشمول صداقت عباسی، فرخ حبیب اور شیخ رشید پر بھی آزمائے جائیں گے اور ایسے ہی مزید ڈرامے نشر کیے جائیں گے۔

پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا کہ ملک کو گھسے پٹے ڈراموں اور فلموں کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے 9 مئی کے واقعات کی اعلیٰ سطح پر عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات اور عوام کو ووٹ کا حق دینے کے لیے 90 روز کی دستوری مدت میں انتخاب کروائے جائیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر نے عثمان ڈار کے انٹرویو پر ردعمل دیتےہوئے تشویش کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما کے انٹرویو سے لاپتا پارٹی کارکنوں کے اہل خانہ کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عثمان ڈار کا انٹرویو دیکھنے کے بعد پی ٹی آئی کے اٹھائے گئے دیگر کارکنوں کے گھر والے انتہائی تشویش میں مبتلا ہیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ان خاندانوں کو اپنے پیاروں کی سلامتی سے متعلق خوف ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کے زبردستی بیانات ناقابل برداشت تشدد کے بعد آتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024