ربیع کی فصل کے دوران پانی کی 15 فیصد قلت کا امکان
پاکستان کو یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے ربیع کی فصل کے رواں سیزن کے دوران 15 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے حالانکہ یہ گزشتہ برس اور گزشتہ 10 برسوں کی اوسط دستیابی کے برعکس بہتر پوزیشن میں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے چیئرمین اسجد امتیاز علی کی زیر صدارت مشاورتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا گیا کہ بیسن کے حساب سے ربیع کی فصل کے دوران 15 فیصد پانی کی قلت کے تخمینے کی منظوری دی گئی۔
کمیٹی کا اجلاس ربیع 24-2023 (اکتوبر تا مارچ) کے لیے متوقع پانی کی دستیابی کے معیار کو طے کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا، اجلاس میں بلوچستان، خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب سے ارسا کے چاروں اراکین کے علاوہ وفاقی فلڈ کمیشن، صوبوں اور واٹر اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے نمائندوں نے شرکت کی۔
پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991 کے معاہدے کے تحت ر بیع کی فصلوں کے لیے پانی کی کُل ضرورت تقریباً 37 سے 28 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ہے، تاہم کمیٹی کا کہنا ہے کہ کینال ہیڈز پر ممکنہ طور پر 31.66 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کی دستیابی گزشتہ سال کی 29.39 ایم اے ایف کی اصل دستیابی اور 10 سالہ اوسط 29.42 ایم اے ایف سے تقریباً 8 فیصد زیادہ ہے۔
1991 کا ’پانی کا معاہدہ‘ ارسا کو ملک میں پانی کی دستیابی اور صوبوں کے حصے کا سال میں 2 بار، یعنی خریف اور ربیع کے موسم کے لیے تعین کرنے کا اختیار دیتا ہے، ربیع کا موسم یکم اکتوبر سے شروع ہو کر 31 مارچ کو ختم ہوتا ہے جبکہ خریف کا موسم یکم اپریل سے شروع ہو کر 30 ستمبر تک جاری رہتا ہے۔
حالیہ ربیع سیزن کے لیے پانی کی متوقع کمی سے بنیادی طور پر گندم کی فصل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، ربیع کے موسم میں سب سے بڑی فصل گندم کی ہوتی ہے، ربیع کی دیگر فصلوں میں چنے، دال، تمباکو، جو اور سرسوں شامل ہیں۔
اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ بہتر آمد و رفت اور دستیاب سپلائی کے مؤثر ضابطے کی وجہ سے رواں برس ربیع کے لیے پانی کے دستیاب ذخیرے کا حجم 11.579 ایم اے ایف ہے جو کہ 10 سالہ اوسط سے 15 فیصد زیادہ اور گزشتہ برس کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔
ارسا کی تکنیکی کمیٹی کی سفارشات پر اجلاس نے رواں برس ربیع کے موسم کے لیے 21.92 ایم اے ایف کے 4 رم اسٹیشنز پر پانی کی متوقع دستیابی کی منظوری دی جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 8 فیصد زیادہ اور 10 سال کی اوسط سے تقریباً ایک فیصد کم ہے۔
اس طرح کینال ہیڈز پر کُل دستیابی کا تخمینہ 31.66 ایم اے ایف لگایا گیا، لہٰذا کمیٹی نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لیے پانی کے حصے کو چھوڑ کر (جو کہ اِن کے آبپاشی کے نیٹ ورک میں رکاوٹوں کی وجہ سے تاریخی طور پر پانی کی قلت سے مستثنیٰ ہیں) 29.77 ایم اے ایف پانی کی دستیابی کی بنیاد پر پنجاب اور سندھ کے لیے پانی کے حصے میں 15 فیصد کمی کا فیصلہ کیا۔
اس طرح پنجاب کو ربیع کی فصل کے پورے موسم کے لیے 16.97 ایم اے ایف کا حصہ مختص کیا گیا، اس کے بعد سندھ کے لیے 12.8 ایم اے ایف کا حصہ دیا گیا، بلوچستان کو 1.18 ایم اے ایف اور اور خیبرپختونخوا کو 0.71 ایم اے ایف مختص کیا گیا۔
اجلاس کے شرکا نے 30 ستمبر کو خریف سیزن کے اختتام کو پانی کی متوقع دستیابی سے بہتر قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا، شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ رم اسٹیشنز پر 30 ستمبر تک حقیقی آمد 95.22 ایم اے ایف تھی جو کہ 92.88 ایم اے ایف کی پیش گوئی شدہ حجم سے 3 فیصد زیادہ ہے لیکن 10 سال کی اوسط 101.55 ایم اے ایف سے 6 فیصد کم ہے۔