چھوٹی عمر سے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے ڈپریشن میں چلی گئی تھی، حمائمہ ملک
اداکارہ حمائمہ ملک کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش مزاج لڑکی ہیں لیکن انہیں رونے میں چند منٹ لگتے ہیں، چھوٹی عمر سے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے ڈپریشن میں چلی گئی تھی۔
حمائمہ ملک نے حال ہی میں میزبان تابش ہاشمی کے پروگرام ہنسنا منع ہے’ میں شرکت کی جہاں انہوں نے ڈپریشن سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔
پروگرام کے شروع میں اداکارہ نے شادی کے سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں شادی کا بہت شوق ہے، ’میں چاہتی ہوں کہ ایک دن میں اپنے میاں کی بیوی بنوں، آپ دعا کریں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’بولی وڈ کے بعد میں ہولی وڈ میں بھی کام کرنا چاہتی ہوں۔‘
پروگرام کے دوران تابش ہاشمی نے سوال پوچھا کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ آپ دن میں ایک بار ضرور روتی ہیں؟‘ جس پر حمائمہ ملک نے جواب دیا کہ ’ایسا پہلے ہوتا تھا لیکن اب نہیں روتی۔‘
رونے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا، میں نے 14 سال کی عمر میں کام کرنا شروع کیا ہے اور اب 34 سال کی ہوں، بہت چھوٹی عمر سے مسلسل کام کرنے کے دوران مجھے اپنے بارے میں جاننے کا موقع نہیں ملا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوران میرے کچھ لوگوں سے بُرے تعلقات رہے، زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا، چھوٹی عمر میں بہت زیادہ شہرت حاصل کی، کچھ چیزیں انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں، اس لیے میں شدید ڈپریشن میں چلی گئی تھی، کام کے دوران مجھے اس بات کا احساس نہیں ہوا۔‘
حمائمہ ملک نے کہا کہ ’مجھے ہر چھوٹی سی چھوٹی بات پر رونا آجاتا تھا، میں بہت خوش مزاج لڑکی ہوں لیکن مجھے رونے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ ’
اداکارہ کا کہنا تھا کہ جب ڈراما سیریل ’جندو‘ کی شوٹنگ جاری تھی، اس دوران انہیں ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ ڈرامے کی شوٹنگ 6 ماہ تک ریگستان میں ہورہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس ویران جگہ پر انسان اپنے آپ کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے، اس وقت مجھے سمجھ آیا کہ فلم ’بول‘ میں زینب کے کردار اور ؔجندو’ میں میرے کردار کو لوگ بہت زیادہ پسند کیوں کرتے ہیں کیونکہ میں بہت زیادہ محسوس کرتی ہوں۔
حمائمہ ملک نے کہا کہ ڈپریشن سے نکلنے کے لیے میں نے اپنا علاج کروایا، ڈاکٹر اور اپنے مرشد سے رجوع کیا، ان دونوں نے مجھے بہتر انسان بنایا ہے کہ آج میں سانس لیتی ہوں، سکون سے سوتی ہوں، میں ہر وقت غمزدہ نہیں رہتی۔
انہوں نے کہا کہ ’اداکار دکھنے میں خوش دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ کس حالات سے گزر رہے ہیں اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔‘