اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار صحافی خالد جمیل کی ضمانت منظور
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانیہ پھیلانے کے الزام میں گزشتہ ہفتے گرفتار کیے گئے صحافی خالد جمیل کی ضمانت منظور کر لی جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔
اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے صحافی کی 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کرلی اور عدالت کی جانب سے ضمانت کے احکامات جاری ہونے کے بعد خالد جمیل کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے صحافی کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ خالد سوشل میڈیا/ٹوئٹر پر انتہائی دھمکی آمیز مواد ٹوئٹس کا اشتراک اور پروپیگنڈا کرتے پائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان نے جان بوجھ کر غلط، گمراہ کن اور بے بنیاد معلومات شیئر کر کے ریاست مخالف بیانیے کی غلط تشریح کی اور اسے پھیلایا جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلنے اور یہ لوگوں کو ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف جرم کے ارتکاب پر بھی اکسا سکتا ہے۔
ایف آئی اے نے مزید کہا کہ محمد خالد جمیل سمیت ملزمان نے ریاستی اداروں کے خلاف ریاست مخالف، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانیے کا پروپیگنڈا کیا اور اسے فروغ دیا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ ویڈیوز سمیت اس طرح کے دھمکی آمیز مواد کے ذریعے ملزم نے عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کے خلاف عام لوگوں کو اکسانے اور ریاست کے ستونوں کے مابین بدنیتی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی۔
رواں ہفتے کے اوائل میں خالد جمیل کے وکیل نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی، گزشتہ سماعت پر عدالت نے ایف آئی اے سے صحافی کے ٹوئٹس سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کو کہا تھا۔
مقدمے کی سماعت
آج سماعت کے آغاز پر خالد جمیل کے وکیل نوید ملک نے عدالت کو بتایا کہ صحافی کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خالد جمیل میڈیا کے منظرنامے کی ممتاز شخصیت ہیں اور اس وقت ایک انتہائی معزز نیوز آرگنائزیشن میں بیورو چیف کے عہدے پر فائز ہیں۔
انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ آئین کا آرٹیکل 19 واضح طور پر آزادی اظہار کے حق کو برقرار رکھتا ہے۔
وکیل نے دلیل دی کہ صحافی کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 20 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون کے مخصوص حصے کو غیر آئینی قرار دیا ہے، اس کے نتیجے میں اس کے تحت کیے گئے کسی بھی اقدام کو کالعدم قرار دیا گیا۔
نوید ملک نے نشاندہی کی کہ ایف آئی اے نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کی اور اس بات کی وضاحت بھی کی کہ کس طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے دوران گرفتاری درخواست گزار کی رازداری کی خلاف ورزی کی۔
جواب میں، پراسیکیوٹر نے دلیل دی کہ خالد جمیل کی ٹوئٹس کی بنیاد پر ایک مخصوص بیانیہ شکل اختیار کر رہا ہے، اگرچہ ٹوئٹر کے رجحانات عارضی ہو سکتے ہیں لیکن یہ اکثر اداروں کو نشانہ بنانے کا باعث بنتے ہیں۔
ان دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور بعدازاں صحافی کی ضمانت منظور کر لی تھی۔