جعلی اکاؤنٹس، توشہ خانہ کیس میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی احتساب عدالت طلب
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توشہ خانہ کیس میں نوٹس جاری کرکے طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالتوں میں ریفرنسز کی واپس منتقلی کا عمل جاری ہے۔
نیب تفتیشی افسران آج مزید ریفرنسز کا ریکارڈ لے کر جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے، تفتیشی افسران، اور احتساب عدالت رجسٹرار نے ریفرنسز کی جانچ پڑتال کا کام شروع کردیا۔
نیب کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس ریفرنس اور توشہ خانہ کیس کا ریکارڈ احتساب عدالت اسلام آباد میں جمع کرایا گیا۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو توشہ خانہ کیس میں جبکہ آصف زرداری کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس اور توشہ خانہ کیس میں طلب کرلیا۔
احتساب عدالت نے دونوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔
توشہ خانہ کیس
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے 2020 میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کی۔
نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر اور اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔
گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے دائر توشہ خانہ ریفرنس عدالتی دائرہ اختیارہ نہ ہونے پر واپس بھیج دیا تھا۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس
خیال رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس اسکینڈل میں لگ بھگ 172 افراد کو تحقیقات کا سامنا رہا ہے جن میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ، صوبائی وزیر انور سیال، پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت دیگر شامل ہیں۔
آصف زرداری، فریال تالپور اور متعدد دیگر کاروباری افراد کے خلاف سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل میں 29 ’بے نامی‘ اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی جعلی ٹرانزیکشنز سے متعلق 2015 کے کیس کے طور پر تحقیقات کی گئیں۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد اگست 2018 میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔
15 مارچ 2021 کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔
9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔
تاہم رواں برس جنوری میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز میں 21 میں سے 14 ریفرینسز نیب کو واپس بھیج دیے تھے، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے ریفرنس واپس بھیجنے کے حکم نامے میں کہا گیا کہ نئے نیب قانون کے بعد جعلی بینک اکاؤنٹس کا ریفرنس احتساب عدالت میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔